Posts

Showing posts from February, 2020

Zaban-e-Khalq زبان خلق ، شمارہ 33

Image

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقی

٭ہندوستان ایک خطرناک صورتحال کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگ نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ وزیر اعلیٰ اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ کے گولی بنام بولی والے حالیہ تبصرے پر مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنر جی کا بیان عہدہ چاہے وہ کوئی بھی ہو ایک بار اگر کسی کو حاصل ہوجائے تو شاید ہی کسی نے اُس پر بیٹھ کر چاہت کے پھول بکھیرے ہیں۔ محبت اور پیار  کے بہ نسبت نفرت اور بغض پھیلا کر عہدے کو مضبوط کرنازیادہ آسان ترکیب ہے۔ موجوہ ارباب حکومت نے اقتدار نفرت کے بل بوتے پر ہی حاصل کی ہے، ان سے اس کے سوااور کیا امید کی جاسکتی ہے۔ ٭ملک کے کئی حصوں میں شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف ہورہے مظاہروں کے بیچ وزارتِ داخلہ نے پارلیمنٹ میں دی صفائی، ملک گیر این آر سی لانے پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ایک خبر بات سمجھنے کی ہے، ابھی کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے کر کے کہا گیا ہے، یعنی اس کا مطلب کبھی بھی یہ فیصلہ لیا جاسکتا ہے۔ وزیر داخلہ نے عوام کو کرونولاجی(ترتیب کا علم)  اچھی طرح سمجھا دی ہے، اس لئے اب وہ ایسے پھسلاوے میں آنے والے نہیں۔ ٭شاہین باغ میں اظہار رائے کی ...

عوامی احتجاج پر قائدین کی سیاست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

جرعات  ایک گھمبیر مسئلے پر ہورہے عوامی احتجاج پر اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکانے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے باؤلا ہو رہا ہے۔ حکومت کو لگتا ہے کہ اگر وہ احتجاج کرنے والوں کے آگے تھوڑا بھی نرم ہوئی تو اُس کے ووٹ بینک میں فرق پڑ سکتا ہے،اُس کے اندھ بھگت اُس سے ناراض ہو سکتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے موقف پر سختی سے اڑے رہنے پر مجبور ہے۔ اپوزیشن کی سچ پوچھیں تو وارے نیارے ہوگئے ہے۔ بیٹھے بٹھائے حکومت نے دم توڑتی حزب اختلاف کو لائف لائن فراہم کر دی ہے۔ اس گرم ماحول میں مذہبی قیادت بھی الگ سے اپنی روٹیاں سیکنے میں مصروف نظر آرہی ہے۔ گاہے ماہے پریس کانفرنسیں منعقد کر کے ہر کوئی اپنے آپ کو عوامی اسٹیج کا کردار ثابت کر نے کی کوششوں میں مشغول ہے۔ جلسے، جلوس اور دھرنوں کے خاطر بڑھتی مانگ کو دیکھتے ہوئے نام نہاد شعلہ بیان مقرروں، سیاسی ڈرامہ بازوں، عیار مذہبی قائدین کی روز نئی نئی دکانیں کھلنی لگی ہیں۔ ایک ہی دکان سے آپ کو حکومت کی مخالفت میں بولنے والے اور تائید میں بولنے والے الگ الگ نرخ پر آسانی سے دستیاب ہیں اور بیچارے جمہور! یعنی ہم، اپنی خون پسینے کی کمائی...