عوامی احتجاج پر قائدین کی سیاست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ
ایک گھمبیر مسئلے پر ہورہے عوامی احتجاج پر اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکانے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے باؤلا ہو رہا ہے۔ حکومت کو لگتا ہے کہ اگر وہ احتجاج کرنے والوں کے آگے تھوڑا بھی نرم ہوئی تو اُس کے ووٹ بینک میں فرق پڑ سکتا ہے،اُس کے اندھ بھگت اُس سے ناراض ہو سکتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے موقف پر سختی سے اڑے رہنے پر مجبور ہے۔ اپوزیشن کی سچ پوچھیں تو وارے نیارے ہوگئے ہے۔ بیٹھے بٹھائے حکومت نے دم توڑتی حزب اختلاف کو لائف لائن فراہم کر دی ہے۔ اس گرم ماحول میں مذہبی قیادت بھی الگ سے اپنی روٹیاں سیکنے میں مصروف نظر آرہی ہے۔ گاہے ماہے پریس کانفرنسیں منعقد کر کے ہر کوئی اپنے آپ کو عوامی اسٹیج کا کردار ثابت کر نے کی کوششوں میں مشغول ہے۔ جلسے، جلوس اور دھرنوں کے خاطر بڑھتی مانگ کو دیکھتے ہوئے نام نہاد شعلہ بیان مقرروں، سیاسی ڈرامہ بازوں، عیار مذہبی قائدین کی روز نئی نئی دکانیں کھلنی لگی ہیں۔ ایک ہی دکان سے آپ کو حکومت کی مخالفت میں بولنے والے اور تائید میں بولنے والے الگ الگ نرخ پر آسانی سے دستیاب ہیں اور بیچارے جمہور! یعنی ہم، اپنی خون پسینے کی کمائی اور اپنا قیمتی وقت لگا کر بھی سامعی کے صفوں میں کھڑے اپنی من کی بات سننے اور سنوانے سے قاصر، عیار سیاستدانوں اور مذہبی قائدین کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے، سر دھن رہے ہیں کہ ہم نے ایک ظالم و جابرحکومت کے آگے ایک کامیاب احتجاج درج کی ہے اور ہماری اس تحریک کی وجہ ایوانوں میں زلزے کے جھٹکے محسوس ہورہے ہیں۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ موجودہ حکومت اگر کسی سے خائف ہے اور آگے بھی ہوسکتی ہے تو وہ صرف ہم عوام ہیں۔ ہمارا ہر قسم کی آپسی اختلاف بھلا کر ایک پلیٹ فارم میں جمع ہوجانے سے اس کی ”توڑو اور حکومت کرو“کی حکمت عملی کو کرارا جھٹکا لگا ہے۔ ذات پات، رنگ نسل اور دین دھرم سے اوپر اٹھ کر ہمار اتحاد ہی حکومت کو نکیل ڈال سکتا ہے۔ جہاں تک سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور ان کے قائدین کا معاملہ ہے موجودہ حکومت کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ اپنے احتجاجات کی قیادت ہم خود کریں، کسی بھی قیمت پر کسی کے ہاتھوں اپنی اس احتجاجی تحریک کو یر غمال ہونے نہ دیں۔ قدیم تعلقات کے جذبات سے مغلوب ہوکریابڑی بڑی پُر جوش باتوں کے سحر میں کھو کر یا عبا و دستار اور عربی عبارتوں کے حوالوں سے مرعوب ہو کر اگر ہم نے پھر وہی غلطی جو وطن عزیز میں جنگ آزادی اور اس کے بعد سے کرتے آرہے ہیں اور اپنی قیادت کی باگ ڈور جذباتی استحصال کرنے میں مہارت رکھنے والے عیار سیاسی اور مذہبی نام نہاد قائدین کو سونپ دی تو یقین جانئے ہماری تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
دو ایک جگہ کچھ نادانی اور نادانستگی سے ہوئی لغزشوں کے باوجود موجودہ احتجاج کی قیادت عوام کے ہاتھوں ہی میں ہے اور یہ بڑی اچھی، خوش آئیندبات ہے۔ لیکن اب اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ احتجاج کی کامیابی کو اپنے حق میں موڑنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ عیار سیاستدانوں اورمذہبی قائدین کا ایک جھتہ آپس میں ساز باز کر کے ہر حال میں اس تحریک کے ڈرائیونگ سیٹ پر قابض ہونا چاہتا ہے۔تاکہ وقت پڑنے پر اس کو روکا جاسکے اور حکومت سے اس کے عوض منہ مانگی قیمت اصول کی جاسکے۔ عہدہ اور کرسی کے جنون میں مبتلا یہ جھتہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے اس کا اندازہ، اس احتجاجی تحریک کو واپس لینے کی اپیل سے ہوسکتا ہے جو برسوں سے مذہبی سیادت کا دعویٰ رکھنے والے ایک مشہور زمانہ منبر و محراب سے نشر کیا گیااور جیسے ہی عوامی مخالفت کا احساس ہوا اپنی اس اپیل سے رجوع ہونے کا ڈرامہ بھی رچا گیا۔اس بات سے قطع نظر کہ اس اپیل اور پھر اس اپیل سے رجوع ہونے کی اس ڈرامے کی اسکرپٹ کس نے لکھی اور کس کے کہنے پر لکھی ہمیں اس ڈرامے کے پس پردہ حاصل کئے گئے فوائد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عالمی پیمانے پر حکومت کے ذرائع سے اس اپیل کی تشہیر اور وطن عزیز کے مخصوص طبقوں میں وہ بھی بلکل ہلکے انداز میں رجوع نامے کاوائرل کرانا خود اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ سب ایک بڑی سازش کا چھوٹا سا شروعاتی حصہ ہے۔ امید ہے نت نئے انداز میں آئندہ ایسے کئی اور ڈرامے سامنے آئیں گے۔ کئی ایسی کرداریں بھی سامنے آئیں گی جن سے اس قدر کمال کی اداکاری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس کے رد عمل میں کسی بھی قسم کی حیرانی اورجذباتی مظاہرہ پیش کئے بغیر ہمیں صرف اپنے مقصد کی طرف توجہ دینی ہوگی۔
لڑائی بہت طویل ہے، ہوسکتا ہے برسوں لگ جائیں لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ گذشتہ سو سال کی تاریخ کو مد نظر رکھ کے ایک لائحہ عمل مرتب کرنا ہے۔ احتجاج کو دھرنوں، جلسے اور جلوسوں تک محدود نہ رکھتے ہوئے اسے ایک تعمیری رنگ بھی دینا ہے۔ آپسی تعلقات کے آئینے پر چڑھے ذات پات، رنگ و نسل،زبان و علاقائیت اور دین ودھرم کے دھول صاٖف کر نا ہے تاکہ فطری انسانی چہروں کے ساتھ ایک خوشگوار، پُر امن زندگی آسان ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ جب تک قیادت کے دعویداروں کا اقربا پروری اورمذہبی مسلکی علاقائی لسانی نسلی تعصب سے اوپر اُٹھ کر سختی سے احتساب نہیں ہوگا اس جنگ میں جیت ناممکن ہے۔ اللہ ہمیں سمجھ دے۔
Comments
Post a Comment