Posts

Showing posts from August, 2021

Zaban-e-Khalq زبان خلق ، شمارہ 66 .... ادبی برقی ضمیمہ E-Issue

Image
 

Zaban-e-Khalq زبان خلق ، شمارہ 66

Image
 

تلخ و رتُرش .................... اسانغنی مشتاق رفیقی

    ٭عالم دین کی بیٹی کو گھر سے بھگایا، بے عزت کی پھر قتل کر دیا۔سہارنپور کے ایک مدرسہ کے مہتمم کے بیٹے اور اس کے دوست کی گھناؤنی حرکت، دونوں گرفتار۔۔۔ ایک خبر جرم اور گناہ کا نہ کوئی دین ہوتا ہے نہ مذہب۔ لیکن اس پوری کہانی کے پیچھے جو محرکات ہیں ان پر غور و فکر کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسے جرائم کا سد باب کیا جاسکیں۔ ٭ٹمل ناڈو، اے ڈی ایم کے لیڈران نے کی وزیر اعظم مودی سے ملاقات، کیا یہ ملاقات وی کے ششیکلا کی پارٹی میں بڑھتی ہوئی مداخلت کو لے کر تھی؟۔۔۔ایک سوال کوئی شک، اے ڈی ایم کے کو ٹمل ناڈو کی سیاست میں زندہ رکھنا ہے تو وہ مرکز سرکار کے دروازے پہ سجدہ ریز ہوئے بغیر ناممکن ہے۔ ٭یو پی میں آنے والے اسمبلی انتخابات کو ذہن میں رکھ کر اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے چھوڑا گیا ہے بڑھتی آبادی کا شوشہ۔۔۔ایک خبر اس میں کوئی شک نہیں۔ الیکشن تک ایسے اور کئی شوشے چھوڑے جائیں گے۔ اب یہ عوام کا کام ہے کہ وہ اپنے مسائل کو رکھ کر ووٹ کرتی ہے یا ان شوشوں پر یقین کر کے۔ ٭اگر میڈیا رپورٹس درست ہیں تو الزامات بہت سنگین ہیں، پیگاسس معاملے پر عدالت عالیہ کا پہلا تبصرہ زیا...

عام آدمی! کیا کبھی بیدار بھی ہوگا؟ ......................... اسانغنی مشتاق رفیقی

    جرعات حالات نازک سے نازک تر ہوتے جارہے ہیں۔ ہر طرف ایک ہا ہا کار مچا ہوا ہے۔ ایسالگتا ہے وقت کا پہیہ فسطائیت کے طوفانوں میں الجھ کر اپنی سمت کھو بیٹھا ہے۔ پتہ ہی نہیں چل رہا ہے کہ ہم مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں یا ماضی کی طرف پلٹ چکے ہیں۔ جھوٹ پر سچ کا ملمع چڑھا کر اس خوبصورتی اور شان سے سیاست کے بازار میں بیچا جارہا ہے کہ ہر کوئی آنکھ بند کر کے منہ مانگے داموں اسے خرید رہا ہے۔ مذہب کے وہ نعرے جن کو سن کر دل عقیدت سے سرشار ہوجاتا تھا آج خوف و دہشت کے علامت بن کر رہ گئے ہیں۔نفرت وبغض کو قابل فخر اور محبت و بھائی چارگی کو بزدلی سمجھا جانے لگا ہے۔ حکمرانوں کو سوائے اپنے اور اپنے مفاد کے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ نوکر شاہی اچھے اور برے کی تمیز سے ماورا ہو کر دونوں ہاتھوں سے دولت بٹورنے میں لگی ہوئی ہے۔ عوام کا تو پوچھنا ہی کیا، سوائے خواب خرگوش کے مزے لینے کے انہیں کچھ نہیں آتا۔ رہی حزب مخالف، وہ ایک ایسے بے پتوار کشتی کی طرح ہے جس کا ہر مسافر خود کو ناخدا سے کم سمجھنے پر تیار نہیں ہے۔ بظاہر تو سمندر پُر سکون ہے لیکن اس کے اندر ہی اندر جو طوفان اٹھ رہا ہے پتہ نہیں وہ کب...