Posts

Showing posts from September, 2021

Zaban-e-Khalq زبان خلق ، شمارہ 68

Image
 

تلخ وتُرش ......................... اسانغنی مشتاق رفیقی

    ٭یوپی اسمبلی انتخابات2021: اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی کی انٹری، برہمنوں کو رجھاتی بی ایس پی سپریمو مایاوتی۔۔۔ ایک عنوان یعنی دونوں یوگی جی کی راہ ہموار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پتہ نہیں ہمارے سیاستدانوں کو الیکشن کے سمے سامنے کی چیزیں بھی کیوں نظر نہیں آتیں، حد سے بڑی ہوئی خوش فہمی اور خود اعتمادی میں مبتلا ہوکر اور کبھی جان بوجھ کر ایسے راستوں پر جا نکلتے ہیں جن کا اختتام بد ترین ناکامی پرہوتا ہے۔ ٭ٹمل ناڈو اسمبلی نے سی اے اے رد کئے جانے کی قرار داد منظور کی۔۔۔ ایک خبر قابل تعریف اور قابل تقلید اقدام۔ مرکزی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ان قوانین کو رد کر دیں اور انہیں اپنی ان کا مسئلہ نہ بنائیں۔ ٭گجرات: وزیر اعلٰی کے استغفیٰ کے بعد نئی کابینہ تشکیل سے قبل بی جے پی میں زبردست رسہ کشی۔حلف برداری ملتوی۔۔۔ ایک خبر کچھ بھی ہوجائے، آنے والی گجرات اسمبلی انتخابات بی جے پی ہی جیتے گی۔ کانگریس اور دوسرے اپوزیشن پارٹیوں کو اس بات کو رکھ کر کوئی خواب دیکھنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ ٭کیا آر ایس ایس بدل رہی ہے؟۔۔۔ ایک سوال امیر الہند کا اس سلسلے میں واضح ...

مایوسی کی انتہا یا آگے بڑھنے کی نئی حکمت عملی .................. اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

    جرعات            ایک کمزور اور بے بس لڑکی کے جسم پر پچاس سے زیادہ گہرے زخم، اور ان زخموں کے پیچھے تشدد کی ا یسی کہانی کہ زبان بولنے سے اور قلم لکھنے سے قاصر ہو۔ لیکن اس پر سماج میں کہیں بھی کوئی ہلچل نہیں، کوئی احتجاج نہیں، آہ و بکا کا شور اٹھ رہا ہے تو صرف مظلوموں کے صفوں سے، کیا معاشرہ سچ میں بے حس ہو چکا ہے؟ یا کوئی اور بات ہے۔ ہائے افسوس!!  مایوسی کی انتہا ہوتی جارہی ہے۔ ظالموں کے حوصلے اتنے بلند ہوچکے ہیں کہ انہیں ملکی قانون کا ڈر ہے نہ خدائی قانون کا۔ ظلم، بربریت اور سفاکی کا مظاہرہ اتنی بے باکی سے ہورہا ہے کہ انسانیت شرمسار ہے۔ اب تو شاید ہی کوئی دن ایساگذرتا ہے جب کہیں سے بربریت کی کوئی خبر نہ آتی ہو۔ پتہ نہیں مجبور لڑکیوں کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے یامعصوم بچوں پر ذود کوب کر کے یا کمزور مجبور اور لاچار اکیلے آدمی پر ظلم اور تشدد کی انتہا کر کے، بیچ سڑک پر کھلے عام اسے لاٹھیوں سے پیٹ پیٹ کر مار دینے میں ان فاشسٹ جنونیوں کو کس قسم کا حظ ملتا ہے۔ آخر وہ اور اُن کے سیاسی سرپرست اپنے ان گھناؤنی حرکات سے دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے...

Zaban-e-Khalq زبان خلق ، شمارہ 67

Image
 

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق رفیقی

    ٭ہم غلامی کی طرف بڑھ رہے ہیں، ستر سالوں کی جمع پونجی کو فروخت کیا جارہا ہے۔۔۔ کانگریسی رہنما راہل گاندھی اب کی بار یہ طوق اکثریت چاہ کر پہن رہی ہے، اس لئے آزادی کے نام پر سیاست کرنا بہت مشکل ہے۔ کانگریس کو چاہئے کہ اگر وہ سیاست کے میدان میں خود کو زندہ رکھنا چاہتی ہے تو اپنے لئے اس سے بھی بڑا کوئی اور نعرہ ڈھونڈے۔ ٭بھارت میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی ملک کی ترقی کے لئے انتہائی خطرناک۔۔۔صدر جمعیتہ العلما ء مولانا ارشد مدنی ساتھ ہی اے کاش!! مولانا اگر یوں بھی بول جاتے کہ ”مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی مسلک پرستی، مکتبہء فکر کی ضد اور اندھی تقلید امت کی ترقی کے لئے انتہائی خطرناک ہے،“  تو کتنا اچھا ہوتا۔ ٭معیشت تانا شاہی سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔۔۔ راہل گاندھی نے جی ڈی پی کی گرتی شرح نمو پر وزیر اعظم مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن حکومت اور سیاست تو آگے بڑھ سکتی ہے۔ معیشت کی فکر جب عوام کو ہی نہیں تو پھر حکمران کیوں کرے راہل جی۔ ٭سی آئی اے سربراہ کی افغان رہنما ملا برادر سے خفیہ ملاقات ہوئی۔۔۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ یعنی افغانستان میں آج کل جو ڈرامہ چل رہا ہے اس...

آزادی، وطن عزیز اور ہم۔۔۔ ایک جائزہ ....................... اسا نغنی مشتاق رفیقی

    جرعات    انسانی سماج میں آزادی کا تصور فطری ہے۔ لیکن آزادی کی تعریف اور تفہیم میں وقتاً فوقتاً حالات اور مسائل کی مناسبت سے تبدیلی آتی رہی ہے۔ ایک غلام معاشرے میں آزادی کا تصور اور ہوتا ہے اور ایک آزاد معاشرے میں آزادی کا تصور اور۔ اسی طرح ایک ترقی یافتہ سماج میں آزادی کی جو تعبیر ہوتی ہے وہ ایک جاہل اور نیم خواندہ معاشرے میں نہیں ہوتی ، ان کے یہاں آزادی کا مفہوم اور ہوتا ہے۔ سیاست میں آزادی ایک بہت ہی خوشنما لفظ ہے ۔اگر غور سے دیکھا جائے تو موجودہ دور میں سیاست کی بنیاد ہی اسی لفظ پر قائم ہے ۔ جتنے بھی سیاسی نظام آج کل دنیا میں جاری و ساری ہیں ان کا نعرہ اول آزادی ہے۔   لفظ آزادی کا زیادہ شور اور استعمال انیسویں صدی کے اواخر میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعدتیسری دنیا کے ان ممالک میں جن پر یورپی اقوام برسر اقتدار تھے ، اپنے حاکموں کے خلاف احتجاج کے دوران شروع ہوا اور پھر اس شور میں اتنی شدت پیدا ہوئی کہ ان جابر غیر ملکی حکمرانوں کو اقتدار مقامی افراد کو سونپ کر اپنے اپنے وطن واپس لوٹنا پڑا۔ وطن عزیز میں بھی انگریز وں کو جوایک صدی کے قریب ...