اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ
جرعات
حالیہ عدالت عالیہ کے فیصلوں سے یہ بات
یقینی ہوچکی ہے کہ بھارت تاریخ کے ایک نئے موڑ میں داخل ہو چکا ہے۔ ایک ایسے موڑ میں
جہاں اکثریتی جبر بھارت کی مثالی رواداری اور بھائی چارگی پر حاوی ہوچکی ہے۔ فاشسٹ
طاقتوں نے کمال عیاری سے عوام کی ایک بڑی تعداد کو ایسے مسئلوں میں الجھا دیا ہے جن
کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے۔ سرمایہ دار وں، نام نہاد مذہبی قائدین اور نوکر شاہی
کے گٹھ جوڑ سے ایک ایسا تکون وجود میں آگیا ہے جس کی ہر چوٹی پر فساد اور انتشار کا
نوکیلا خنجر گڑا ہے۔ نفرت اور عداوت کے نئے زاویے تراش کر معاشرے کو ہمیشہ کے لئے تقسیم
در تقسیم کی راہ پر لگا دیا گیا ہے۔ ان سب کے پیچھے ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی طرح
اقتدار پر گرفت مظبوط کی جائے اور اس گرفت میں ہمیشگی لائی جائے۔
وطن عزیز میں امت کا المیہ یہ ہے کہ آپ،
آج بھی ماضی میں جی رہے ہیں۔آپ کی زبوں حالی کی وجہ زمینی حقائق سے مسلسل چشم پوشی
ہے، نہ آپ کو اس بات کا ادراک ہے کہ اب آپ اقتدار سے بے دخل ہوچکے ہیں اور نہ آپ اس
بات پر یقین کرنے کو تیار ہیں کہ معاشی، سیاسی، سماجی ہر اعتبار سے آپ کی حیثیت صفر
ہوگئی ہے۔ آپ کی پہچان ایک ایسے منتشر گروہ کی ہے جس میں کوئی نظم وضبط ہے نہ جس کا
کوئی قائد، آپ میں کا ہر فرد بزعم خود دانا وعالم، اپنی انا پرستی کو حق پرستی قرار
دے کراس بات پر اصرار کرنے والا کہ صرف اُس کی سنی جائے اور مانی جائے اور جو ایسا
نہ کرے سماج میں اُسے گمراہ کہہ کر اچھوت بنانا ہی اُس کے شب و روز کا مقصد۔ اتنا ہی
نہیں نادانی اور جہالت کی وجہ سے باطل کے ہاتھوں جس ذلت آمیزشکست کا مسلسل سامنا ہے،
اُس کی غلط تاویل اور ہار کو بھی جیت سمجھنے کی ضد نے عوام میں آپ کا ایک مذاق بنا
دیا ہے۔ باطل اپنی ہدف کے ساتھ جنون کی حد تک منسلک تیزی سے رواں دواں ہے، لیکن افسوس
اُمتِ خیر اپنی بعثت سے لاعلم، لایعنی چیزوں کے پیچھے سرگرداں، نام نہاد علماء و قائدین
کی اندھ بھگتی میں مبتلا اپنے ہدف سے بہت دور نکل چکی ہے۔
جب اللہ نے ساری زمین کو آپ کے لئے مسجد
بنادی ہے، یہ بھی فرما دیا ہے کہ آپ ایک اُمت خیر ہیں اور آپ کا مقصد لوگوں کو خیر
کی طرف دعوت دینا ہے اور اس بات کی بھی بشارت دے دی ہے کہ اگر آپ نے اس فرض کو خوش
اسلوبی سے انجام دیا توآپ کے لئے آخرت کی کامیابی تو ہے ہی زمین پر بھی اقتدار سے نوازا
جائے گا۔اس کے باوجود ایک سیاسی مسئلے کو اپنی شناخت سے جوڑ کر اُس پر اپنی جان و مال
کی قربانی کو مباح قرار دے دینا، اپنی دانائی و لیاقت کو اللہ کی طرف سے تفویض کردہ
کارخیر میں لگانے کے بجائے اُس کے پیچھے لگانا وہ بھی ناکامی کا صد فیصد امکان ہوتے
ہوئے، کیا یہی ایک مومن کی شان ہے۔ ایک طرف نبوی بصیرت ہے جو توحید کے اولین مرکز کو
بت خانے کی شکل میں دیکھ کر بھی دعوت خیر کو ترجیح دے رہی ہے اور ایک طرف ہم ہیں جو
بزعم خود دخدائی فوجدار بنے ایک مسجدکی بازیابی کو اپنا اولین فرض قرار دے رکھا ہے، حالانکہ
ہمارے آس پاس میں ہزاروں مسجدیں نمازیوں کے لئے نوحہ خواں ہیں،اس کے کارن بھلے سے ہماری
داعیانہ حیثیت پہ سوالیہ نشان لگتا ہو، مدعو قوم کی نفرت و دشمنی میں اضافہ ہوتا ہواو
ر تفویض کردہ کار خیر کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے اللہ کی غیبی مدد سے بھی ہم محروم
ہوتے جارہے ہوں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ، مدعو قوم پر دعوت خیر پیش کر
کے اتمام حجت قائم کر نے کے، ہم ایک باطل عدالت میں ایک سیاسی مسئلے کو لے کر خود پر
اتمام حجت قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہمیں زعم ہے کہ کل قیامت میں اس بات پر رب کے
آگے شرمندگی سے بچ جائیں گے کہ ہم نے مسجد کی زمین کو صنم کدہ بننے کے لئے خود سے نہیں
دی بلکہ آخری حد تک اس کی بازیابی کی کوشش کی، لیکن اس بات کا رائی برابر بھی احساس نہیں کہ اُسی رب کے آگے کیا اس جوابدہی کی شرمندگی
سے بچ پائیں گے کہ ایک پوری قوم کو ہم نے صنم پرستی میں مبتلا دیکھا لیکن ان کے دلوں
میں داخل ہو کر انہیں توحید کی دعوت نہیں دی بلکہ اپنی ناعاقبت اندیشانہ حرکات سے انہیں
دشمنی اور نفرت پر اس حد تک مجبور کردیا کہ وہ ہماری ہر بات سے شاکی ہوگئے۔ اُن پر
اتمام حجت تو کجا اُن کے آگے دعوت خیر پیش کر نے کا خیال بھی ہمارے دل و دماغ سے نکل
چکا ہے۔ وہ جماعتیں بھی جن کا دعوی ہے کہ ان کا مقصد وجود ہی دعوت خیر، دعوت الی للہ
ہے، نجانے کن سیاسی مجبوریوں کے کارن وقت کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے دعوت خیر اوراقامت
دین کے نصب العین کو پس پشت ڈال کر صنم پرستوں کو موحد دبنانے کے فرض منصبی کو ترک
کرکے ایک چھوٹے سے خطہء اراضی کو صنم کدہ بننے سے روکنے میں اپنی لیاقت وتوانائی لٹا
رہے ہیں اور ایسے دروازوں پر کاسۂ گدائی لئے کھڑے ہیں جہاں سے داد رسی کی امید رکھنا
حماقت ہے۔ کاش امت سنبھل جائے اور سمجھ جائے کہ ہماری ترکیب عام نہیں خاص ہے،جہاں سے
بظاہر ہمیں شکست اور ذلت کا سامنا ہوتا ہے وہیں سے درحقیقت ہم پر فتح اور استحکام کے
دروازے وا ہوتے ہیں۔ مومن کی بصیرت اور دور اندیشی کو مثالی مانا گیا ہے، وہ زمانے
کو خدا کی آنکھ سے دیکھتا ہے، وقتی شکست و فتح سے زیادہ اپنی فرض کی تکمیل اسے عزیز
ہوتی ہے اور وہ ہمہ وقت، سرد و گرم سے بے پراوہ، لایعنی سرگرمیوں میں الجھے بغیر مسلسل
اپنی ہدف کی سمت تیز گام ہوتا ہے۔ جب تک ہم خود میں مومنانہ کردار پیدا نہیں کریں گے
اور اپنے مسائل کو داعیانہ بصیرت کے سہارے حل کر نے کی کوشش نہیں کریں گے ناکامی ہی
ہمارے ہاتھ آئے گی۔ اللہ ہمیں سمجھ دے۔
Comments
Post a Comment