حُسینیت اور یزیدیت.......................... اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ



اسلامی نظامِ فکر میں حُسینیت اور یزیدیت دو متضاد سوچ اور رویے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں سانحہءِ کربلا کی حیثیت ایک سنگ میل کی سی ہے جہاں سے خلافت و ملوکیت میں جو کشمکش خلفائے راشدین کے آخری دور میں شروع ہوئی تھی وہ خلافت پر ملوکیت کے جارحانہ جیت کے ساتھ اختتام کو پہنچتی ہے۔ کربلا کے بعد یزیدیت کا مدینہ پر حملہ، واقعۂ حرہ اور مکہ معظمہ پر چڑھائی، کعبہ پر مجنیقوں سے سنگ باری نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ شہادت امام حسین اسلامی تاریخ کے ایک روشن باب کا خاتمہ تھا۔ اس عظیم سانحہ کے بعد امت میں خلافت راشدہ صرف ایک خواب بن کر رہ گئی لیکن اس پورے واقعے سے امت کو جو سبق ملا اُس کی افادیت کل بھی تھی آج بھی ہے اور رہتی دنیا تک رہے گی۔
حیسنیت کوئی مظلومی کی داستان نہیں ہے کہ جس پر سینہ کوبی کی جائیں، یہ اسلامی تاریخ کا سب سے پر جلال اور طاقتور استعارہ ہے۔ باطل کے خلاف اپنی کم مائیگی اور قلت تعداد کے باوجود ڈٹ جانے کا نام حسینیت ہے۔ آخری سانس تک حق کے لئے ہر ظلم برداشت کرنے کا نام حسینیت ہے۔جرءت و بے باکی کے ساتھ انسانیت کی بھلائی کے لئے سینہ سپر ہوجانے کام حسینیت ہے۔ سچائی اور انصاف کے لئے نہ صرف خود کو بلکہ اپنے خاندان کے ایک ایک فرد کو قربان کر دینے کا نام حسینیت ہے۔ جبر اور استبداد کی سرکوبی کے لئے جائے امن سے میدان کرب وبلا کی طرف تن تنہا نکل کھڑے ہونے کا نام حسینیت ہے۔ جب سارا زمانہ مصلحت اور دور اندیشی کے نام پر شیطان صفتوں حکمرانوں کے ظلم سے گھبرا کے گھروں میں بیٹھ جائیں، چُپ کا لبادہ اوڑھ لیں ایسے میں حق کا پرچم لے کر انجام سے بے پرواہ نکل پڑنے کا نام حسینیت ہے۔ یزیدیت جو مکاری، دھوکہ ، ظلم ، جبر ، ناانصافی، مطلق العنانی ، خود سری اور عیش پرستی کی علامت ہے اس کی نحوست سے دنیا کو پاک کر نے کاعزم، حسینیت ہے۔
افسوس ہم نے نادانی سے حسینیت کو ماتم اور سینہ کوبی تک محدود کر کے نہ صرف اس فکر اور رویے کی شان گھٹائی بلکہ باطل طاقتوں کے الجھاوے میں پھنس کر یزیدیت کو اپنے صفوں میں پنپنے کا موقع دیتے رہے۔ جذبات سے اوپر اُٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو آسانی سے اندازہ ہوجائے گا کہ مسجد اور محلے کے چھوٹے چھوٹے اداروں سے لے کر ملکی اور عالمی سطح کے بڑے بڑے مدراسوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، رفاہی انجمنوں، مجلسوں، سیاسی و دینی جماعتوں میں یزیدیت کس حد سرایت کر گئی ہے۔ سماجی مسئلوں میں، بغیر مشورے کے اپنی بات منوانے کی ضد، اقرابا پروری، اہلیت سے قطع نظر چاپلوسوں کو عہدوں سے نوازنا، نسل پرستی، قومی منصب کو خاندانی منصب بنانے کے لئے سیاست و عیاری، ماتحتوں پر بے جا ظلم، ذاتی عیش و عشرت کے لئے عوامی خزانے کا بے دریغ استعمال، حق داروں کو ان کے حق سے محروم رکھنے کے لئے سازشیں، انا اور ہٹ دھرمی کے جھگڑوں کے لئے منصب و عہدے کا استحصال، حصولِ مطلب کے لئے حرام و حلال، حق و صداقت ، اللہ ورسول کی نارضگی کی پرواہ کئے بغیر ہر عمل کے لئے حتاکہ خون بہانے پر بھی آمادہ، کیا یہ سب یزیدیت کی شکلیں نہیں ہیں۔لبوں پر حسینیت کا دعویٰ، عمل یزیدی۔ اگر ہمیں سچ میں امام حسین سے عقیدت ہے، ان کی شہادت پر دکھ ہے، ان کی فکر سے اتفاق ہے تو رسم و روایات سے نکل کر حسینیت کی روح کو اپنے اندر بسانا ہوگا۔ ظلم و جبر، ناانصافی و حق تلفی، مکاری و مطلق العنانی کے خلاف ڈٹ کر آواز بلند کرنی ہوگی۔ یزیدیت پر زبانی لعنت بھیجنے کے بجائے عمل سے ثابت کر نا ہوگا کہ ہم یزیدیت کے نہیں حسینیت کے علمبردار ہیں ۔ اللہ ہمیں سمجھ دے۔

Comments

Popular posts from this blog

اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ............ اسانغنی مشتاق رفیقی