آستین کے سانپ ۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ



کہتے ہیں جب جہاز ڈوبنے پہ آتا ہے تو جہاز چھوڑ کر سب سے پہلے چوہے بھاگنے لگتے ہیں۔ اسی طرح جب کسی قوم و ملت پر زوال کے بادل منڈلانے لگتے ہیں تو اُس کے صفوں میں موجود وہ عیار جن کا مقصد ہر قیمت پر اپنے مسند و دستار کا تحفظ ہوتا ہے، کوڑیوں کے بھاؤ قوم کا سودا کر نے لگتے ہیں تاکہ اُن پر اور اُن کے نام نہاد مورثی سلطنت پر آنچ نہ آئے۔ہر آتی جاتی سانسوں پر قوم کی دہائی دینے والے یہ آستین کے سانپ، دشمنوں کے صفوں میں کھڑے اپنی ہی کشتی کو تاروپیڈ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی دنیا کا دستور ہے اور یہی ازل سے ہوتا آیا ہے۔ اس میں سمجھنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ بات یوں بھی کہی جاسکتی ہے کہ جب کسی قوم پر قدرت مہربان ہوتی ہے تو اُس پر زوال کے آثار لاتی ہے۔ تاکہ اُن میں جو منافقین ہیں جن کا مقصد صرف اپنے مفادات ہوتے ہیں، قوم کے سامنے عریاں ہوجائیں اور لوگ اُن کی حقیقت جان کر ایک نیا لائحہ عمل مرتب کر کے ترقی کے راستے پر پھر سے گامزن ہوجائیں۔
وطن عزیر میں موجودہ حالات سے نپٹنے میں ہماری ناکامی اس بات کا صاف اشارہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم زوال کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی، ہر محاذ پر ہمارے دستے بُری طرح پسپا ہوچکے ہیں۔ ہماری حیثیت اب ایک ہاری ہوئی فوج سے زیادہ نہیں ہے۔ ایسے میں ہماری پہلی ضرورت اپنے صفوں کو درست کرنے اور اُن میں موجود اُن منافقین سے ہوشیار ہونے کی ہے جنہوں نے اپنی چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے ہمیں عر صہ دراز تک غفلت میں مبتلا رکھا،جس کی وجہ سے ہم بر وقت تیارنہ ہوسکے اور محاذ پر محاذ ہارتے چلے گئے۔ اِن منافقین میں کچھ چہرے ایسے بھی ہونگے جن پر یقین کرنا مشکل ہوگا کہ یہ بھی ہمارے زوال کے ذمہ دار ہیں، لیکن حقائق سے منہ موڑ کر جنگ نہیں جیتی جاتی۔ زمینی سچائی یہی ہے کہ جن پر ہم نے بھروسہ کیا انہوں نے آج ہمیں کوڑیوں کے دام بیچ دیا۔ہم پر پڑنے والے دشمنوں کے وار کے خلاف ڈھال بننے کے بجائے اس وار کی تاویل کرنے میں لگے ہیں۔ اتنا ہی نہیں اپنے اِن حرکات کو وقت کا تقاضا، دور اندیشی، مصلحت جیسے خوبصورت ناموں کا غلاف پہنا کے، عقیدت کے بازار میں فروخت کے لئے لے آئے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ اندھ بھگتی میں گرفتار،نہ ہمیں اپنی فکر نہ قوم کی پرواہ، بس ایک بھیڑ کی طرح چلے جارہے ہیں اُن قوم فروشوں کے پیچھے جن کے نزدیک اُن کا مسند و دستار ہی سب کچھ ہے۔ جس کی خاطر وہ قوم کیا چیز ہے وقت پڑا تو ایمان بھی بیچنے کے لئے آمادہ ہوجائیں۔
ایک طرف حالات ایسے ہیں تو دوسری طرف خوف اور دہشت کا ایک ماحول بنایا جارہا ہے،در اندازوں کا ہوا کھڑا کرکے ہندوستانی شہریت کے نام پرپہچان کھو دینے کا ڈر پیدا کیا جاریا ہے۔ بد قسمتی سے اس ماحول کو بڑھاوا دینے میں ہمارے ہی کچھ کوتاہ بین جذباتی نام نہاد دانشوروعلماء بھی شامل ہیں۔ڈر اور خوف کے نفسیات جب کسی معاشرے میں سرایت کر جاتے ہیں تو اُس معاشرے کے افراد میں ظلم کے خلاف مزاحمت کی قوت ختم ہوجاتی ہے۔ اصل میں ایساماحول بنانے کا مقصد ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو ذہنی اپاہج بنا نا ہے۔ تاکہ ہم اور ہماری نسلیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوکر مشینی روبوٹ کی طرح ایک فاشسٹ سرمایہ دارانہ نظام کا کل پرزہ بن جائیں۔
سچ پوچھیں تو وطن عزیزمیں جو حالات آج ہم پر آئے ہوئے ہیں شاید ہی کبھی کسی پر آئیں ہو۔ پل پل اقتدار کی گلیاروں سے ایسے ایسے اعلانات آرہے ہیں جن کا ملک کے آئین سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، اکثر اعلانات تو راست آئین سے ٹکراتے ہیں۔ ان سب کے باوجود۔۔۔
دل میں امید کی کرن ہے ابھی
ابھی آئین باقی ہے صاحب
ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، حالات اتنے بد تر نہیں ہیں جتنا بتایا اور دکھایا جارہا ہے۔ اگر ہم، جو کچھ ہم پہ بیت چکا ہے اور جو بیت رہا ہے اُس کو نظر میں رکھ کر دور اندیشی کے ساتھ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے آگے کے لئے لائحہ عمل مرتب کریں، اپنے دستوں سے منافقین کو نکال کر پھر سے صف بندی کرلیں، کوتاہ بین،نام نہاد دانشوروں اور علماء کے خوف زدہ کردینی والی تحریروں اور تقریروں سے دور رہیں، تو ہم میں یقینا پھر سے خود اعتمادی پیداہوگی، خوف اور ڈر کے نفسیات کی جگہ ہمت و جرء ت کا جذبہ جاگے گا، اور پھر ان شاء اللہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ اللہ ہمیں سمجھ دے۔

Comments

Popular posts from this blog

اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ............ اسانغنی مشتاق رفیقی