جو ڈر گیا، سمجھو مرگیا ..................... اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ
چند دہائیوں قبل کی بات ہے
کہ ہم میں سے کئی لوگوں نے فلم شعلے میں ایک مکالمہ سنا تھا،”جو ڈر گیا، سمجھو مرگیا“
ہمارا خیال ہے کہ شایدہی کسی نے اس کو بھول پایا ہو۔ انسان کی زندگی میں ڈر اور گھبراہٹ
ایسے رویے ہیں جو جیتے جی انسانوں کو مار دیتی ہیں۔ گھبرایا اور ڈرا ہوا انسان نہ خود
جیتا ہے نہ اوروں کو جینے دیتا ہے،وہ نہ صرف خود کی بلکہ دوسروں کی زندگی بھی برباد
کر کے رکھ دیتا ہے۔ڈر اور گھبراہٹ یعنی خوف انسان کو نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں۔اگر
ڈر اور خوف کو کسی انسانی سماج پر مسلط کیا جائے تو یہ اور زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ تاریخ
گواہ ہے، اس کے رد عمل میں زمین کا ایک بڑا حصہ انارکی اور لاقانونیت کا شکار ہوجاتا
ہے۔
وطن عزیز کی بد قسمتی
کہ آج کل اُس پر ایک ایسا ٹولہ بر سر اقتدار ہے جو اپنی انتہا پسند نظریات کو ملک پر
تھوپنے کے لئے سرمایہ داروں سے مفاہمت کر کے ذرائع ابلاغ کے ہر شعبے کو اپنے قبضے میں
لے کر عوام کی ایک بڑی اکثریت کو ڈر اور خوف میں مبتلا کر نے میں کامیاب ہوگیا ہے۔
اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر نے کے لئے جہاں ایک طرف وہ اکثریت کے دلوں میں اقلیت
کا ڈر پیدا کر کے انہیں مسلسل بڑھاوا دیتے آرہا ہے وہیں دوسری طرف اقلیت کو اکثریت
کا خوف دلا کر انہیں حاشیے پر لینے کی کوشش میں دن رات لگا ہوا ہے۔ ملک کے ایک بڑے
اور درد مند دل رکھنے والے صنعت کار راہل بجاج نے ایک تقریب میں جس میں وزیر داخلہ
خو د موجود تھے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کہا کہ ”ملک میں خوف کا ماحول ہے اور لوگ اپنی
بات رکھنے سے ڈر رہے ہیں۔“ یہ اور بات ہے کہ
وزیر داخلہ نے اس کا انکار کیا اور کہا کہ”کسی کو بھی کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور
نہ کوئی کسی کو ڈرانا چاہتا ہے۔“ حالانکہ ملک میں گزشتہ کچھ سالوں سے، گھر واپسی اور
لو جہاد کا ہوا کھڑا کر کے، تین طلاق بل کے
نام پر پارلیمنٹ میں قانون پاس کر کے، گؤرکھشا کے نام پر ہجومی تشدد کو ہوا دے کر جو
ماحول بنایا گیا اور اب شہریت ترمیم بل اور این آر سی کی بات کر کے جو ماحول بنایا
جارہا ہے اس سے یہ صاف ہوچکا ہے کہ بر سر اقتدار طبقہ ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کر
کے کیا حاصل کرنا چاہ رہاہے۔ لیکن..... اس کا نتیجہ کیا ہوگا، ملک کی ایک بڑی آبادی
کو خوف اور ڈر میں مبتلا کرنا کیا وطن کے مفاد میں ہے، اگر اس کی وجہ سے سماج میں انتشار
اور انارکی پھیلی تو پہلے ہی سے اقتصادی اور معاشی پریشانیوں کے شکار یہاں کے عوام
کتنے عرصے تک اس کو سہہ پائیں گے۔ کاش اقتدار کی گھمنڈ میں مبتلابر سر اقتدار طبقہ
ہٹلر اور مسولینی کے انجام سے سبق لیتا، ڈر اورخوف کا ماحول پیدا کر کے آپ وقتی جیت
تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن انجام بہت بُرا ہوگا، تاریخ میں آپ کا نام ہمیشہ کے لئے بُرے
القابات کے ساتھ جڑ جائے گا۔ آپ چنگیز، ہلاکو جیسے بد ترین ننگ انسانیت حکمرانوں کے
ساتھ گنے جائیں گے۔ آپ کے بعد آپ کی نسلیں رہتی دنیا تک شرم سے گردن جھکائے آپ سے تعلق
کو چھپائے اپنی صفائی دیتی رہیں گی۔ کاش اے کاش بر سر اقتدار طبقہ یہ باتیں سمجھ لے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا
رویہ کیسا ہونا چاہئے، کیا ہمیں ڈر اور خوف کو اپنے اوپر مسلط کرلینا چاہئے اور اپنے
آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہئے یا مومنانہ بصیرت کے ساتھ اس کے آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر مد مقابل آنا چاہئے۔ یہ بات خود ہمیں طے کرنی ہے۔ کیونکہ ہم دیکھ
رہے ہیں کہ ہمارے سیاسی، سماجی اور مذہبی قیادت اس ڈر اور خوف کے آگے ہتھیار ڈال چکی
ہے۔ د و ایک آوازوں کے سوا ہر طرف ہُو کا سناٹا ہے۔ مذہبی قیادت کو اپنے مدرسوں، خانقاہوں
اور مسجدوں کی پڑی ہے جن سے ان کی روزی روٹی وابستہ ہے اور سیاسی و سماجی قیادت کو
اپنے عہدوں اور کرسی کی کشش نے بے دست و پا کر رکھا ہے۔ منبر و محراب سے تیغ برہنہ
بن کر اپنوں پر برسنے والے ذرا ذرا سی باتوں پر کفر و گمراہی کے فتوے داغنے والے حقیقی
دشمن کی آہٹ پا کر نہ جانے کہاں چھپ گئے ہیں۔ سیاسی اسٹیج کے مداریوں کے بارے میں کچھ
کہنا بیکار ہے کیونکہ وہ اپنے آقاؤں کے سوچ کے آگے سانس بھی لینے کی ہمت نہیں رکھتے۔
کہیں کہیں احتجاج کی باتیں بھی ہورہی ہیں لیکن کہا نہیں جا سکتا کہ ان کی مدت عمر کتنی
ہوگی۔ مایوسی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی کرن اگر کسی کو بننا ہے تو وہ ہم
خو د ہیں۔ ہم میں کا ہر فرد، مرد ہو یا عورت، چاہے عمر کے کسی بھی حصے میں ہو اگر یہ
ٹھان لے کہ اب ہمیں کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، ہمارا اللہ ہمارے لئے کافی
ہے، چاہے ہمیں ڈرانے اور مٹانے کی کوئی لاکھ کوششیں کر لے لیکن جب تک مشیت الہی نہ
ہوگی کوئی ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔
وَإِنْ یَمْسَسْکَ
اللَّہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہُ إِلَّا ہُوَ
وَإِنْ یَمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ۔(سورہ انعام 17 )
اور اگر تم کو خدا کوئی سختی
پہنچائے تو اس کے سوا اس کو کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر نعمت (وراحت) عطا کرے
تو (کوئی اسکو روکنے والا نہیں) وہ ہرچیز پر قادر ہے۔
یہی یقین اور اعتماد ہی در حقیقت ہمیں اس مسلط کی گئی ڈر اور
خوف سے نکال سکتا ہے۔ہمیں چاہئے کہ بغیر اشتعال میں آئے، مکمل حکمت عملی کے ساتھ اپنے
اپنے دائرے میں ہر طبقے کے عوام سے جڑیں رہیں، اپنا بھولا ہوا داعیانہ کر دار لوگوں
کے آگے پیش کریں۔ صبر اور استقلال کے ساتھ قانون کا احترم کرتے ہوئے اپنی آزادی اور
عزت نفس کی دفاع کے لئے ہمہ وقت کمر بستہ رہیں۔ بے شک مکر کرنے والے لاکھ مکر کرلیں
لیکن جب سب سے بڑا مکر کرنے والا مکر کرنے پر آئے گا تو سب دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔
اس سبق کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ "جو ڈر گیا سمجھو مرگیا"۔۔۔ بقول غالب
رات دن گردش میں ہیں
سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ
گھبرائیں کیا
مومن کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا اپنے اللہ پر کامل یقین
ہے۔ جب تک یہ ہتھیار ہمارے ساتھ رہے گا دنیا کی کوئی طاقت ہمیں سر نگوں نہیں کر سکتی۔
اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔
Comments
Post a Comment