سی اے اے، این آر سی اور این پی آر ۔۔۔۔ کیا؟ کیوں؟ اور کب تک؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ




جرعات


 مہینوں قبل کی بات ہے، بھارت کے پارلیمنٹ میں سی اے بی نامی ایک بل پیش کیا جاتا ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس بل کے تحت تین پڑوسی ممالک کے ستائے گئے ہندوؤں، جینوں، پارسیوں، سکھوں اور عیسائیوں کوسوائے مسلمانوں کے بھارت کی شہریت دی جائے گی۔اپوزیشن کی سخت مخالفت کے باوجود کہ اس بل کے تحت آزادبھارت میں پہلی مرتبہ مذہبی بنیادوں پر شہریت کا فیصلہ دستور کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے یہ بل دونوں ایوانوں میں فوراً پاس ہوجاتا ہے اور قانون کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ دھیمے دھیمے سُروں میں عوام میں اس کی مخالفت اُبھرنے لگتی ہے، ایسے میں حکومت کا بیان آتا ہے اس قانون کے بعد اب ملک بھر میں این آر سی لاگو ہوگا جس کے تحت بھارت کے تمام شہری اپنی شہریت ثبوت کے ساتھ رجسٹرڈ کرائیں گے اور جن کے پاس شہریت ثابت کرنے کے دستاویزات نہیں ہونگے انہیں گھس پیٹیا سمجھا جائے گا۔ پھر یہ بات بھی سامنے آتی ہے سی اے اے کے ذریعے سوائے مسلمانوں کے سبھی کو راحت دے دی جائے گی۔ این آر سی کے پہل کڑی کے طور پر این پی آر لاگو کرنے کی بات پھر زور شور سے اچھالی جاتی ہے یہ کہہ کر کہ گزشتہ حکومتوں میں بھی ہر دس سال میں ایک بار یہ مردم شماری ہوتی رہی ہے، لیکن در پردہ اس میں اس بار کچھ ایسے سوالات جوڑ دئے جاتے ہیں جن کی وجہ سے عوام میں ایک اضطراب پیدا ہوجاتا ہے۔ مخالفت میں تیزی آنے لگتی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی عوامی احتجاج کے کگار پر کھڑے ہوکر وزیر داخلہ کرونولاجی سمجھا نے لگتے ہیں کہ کیسے پہلے این پی آر کے تحت رجسٹریشن ہوگا پھر این آر سی لاگو کی کی جائے گی اور اس کے بعد سی اے اے کا استعمال ہوگا۔ حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے بھارت کے سنجیدہ مزاج افراد کا ایک گروہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تاکہ دستور کے دائرے میں اس سیاہ قانون پر پابندی لگا دی جائے اور عوام کے ایک بڑے طبقے میں اس کی وجہ سے جو بے چینی پیدا ہورہی ہے اس کا خاتمہ ہو۔ لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے فوری راحت نہیں ملتی۔ سڑکوں پر احتجاج میں شدت پیدا ہونے لگتی ہے۔ خاص کر دہلی کے جامعہ ملیہ اور جے این یو میں زبردست ہنگامہ ہوتا ہے۔ گولیاں چلتی ہیں اور کئی طلبا و طالبات بری طرح گھائل ہوتے ہیں۔ اتر پردیش میں بھی احتجاج پُر تشدد ہوجاتا ہے کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، کئی بری طرح گھائل ہوجاتے ہیں اور کئی افراد پر کیس درج ہوجاتا ہے۔ ان علاقوں کے سوا ملک کے تمام حصوں میں یہ احتجاج پُر امن ہی رہتا ہے۔ اکا دکا واقعوں کے سوا کہیں سے تشدد کی کوئی خبر نہیں آتی۔ دہلی میں شاہین باغ علاقے کے خواتین اس بیچ سڑک پر دھرنے میں بیٹھ جاتے ہیں، سخت مخالفت کے باوجود ان سیاہ قوانین کی واپسی کی مانگ کرتے ہوئے سختی کے ساتھ رات دن کڑکتی سردی میں بھی احتجاج پر جمی رہتی ہیں۔ انکی یہ احتجاج ایک علامتی رُخ اختیار کرلیتی ہے ملک بھر میں اسی طرز کے شاہین باغ احتجاج شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کے سوا بھی دنیا بھر میں موجود بھارتی اپنے اپنے جگہوں پر جلسے اور جلوس نکال کر اس سیاہ قانون کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی عالمی بے چینی کے باوجود حکومت اس قانون کو لے کر ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ اس بیچ دہلی اسمبلی کے لئے انتخابات کا اعلان ہوجاتا ہے۔ اس انتخابی دنگل میں حکومت کڑے تیور کے ساتھ حصہ لیتی ہے اور سی اے اے کی مخالفت کو ملک سے غداری کے طور پر پیش کر کے عوام سے ووٹ کی اپیل کرتی ہے، دوسری طرف دہلی اسمبلی میں بر سر اقتدار عآپ پارٹی اپنی کارگردگی پر عوام سے ووٹ دینے کی گزارش کرتی ہے۔ عوام عآپ پارٹی کو جتوا کر یہ ثابت کردیتے ہیں کہ وہ مرکزی حکومت کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس انتخاب میں دہلی کا ماحول اتنا خراب کردیا جاتا ہے کہ انتخاب اور نتائج کے اعلان کے کچھ ہی دنوں بعد سی اے اے کی تائید اور مخالفت کے نام پر زبردست فسادبرپا ہوجاتا ہے۔ پچاس سے زیادہ افراد اس فساد کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور کڑوڑوں کی مالیت تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ کھلے عام بربریت کا ننگا ناچ ہوتا ہے اور حکومت تماشائی بنی رہتی ہے۔ ایک فالج زدہ عورت کی درد بھری داستاں سن کر آنکھ میں آنسو بھر لینے والے وزیر اعظم پر پتہ نہیں کیوں ملک کے اتنے سارے بے بس،مجبور اور لاچار عورتوں کی آہوں اور کراہوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیا یہ عورتیں، عورتیں نہیں ہیں۔
پتہ نہیں آخر یہ سب کیا ہورہا ہے، کیوں ہورہا ہے اور کب تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ اقتصادی اور معاشی مسائل سے دوچار ایک ایسے ملک میں جس کی ایک بڑی آبادی آج بھی غریبی کی ریکھا سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے کیا کسی ایسے قانون کی سچ میں سخت ضرورت ہے جس سے سماج میں دڑاریں پڑیں اور آپسی انتشار کی وجہ سے انارکی کی کیفیت پیدا ہوجائے۔ حکومت یہ بات اچھی طرح سمجھتی ہے کہ ملک کی ایک بڑی آبادی کو خوف اور دہشت میں مبتلا کر کے ملک میں امن وا مان قائم کرنا ناممکن ہے اور بغیر امن و امان کے ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔
پھر بھی اس سیاہ قانون کے حوالے سے حکومت کے کڑے تیور کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ضرور اس کے پیچھے کچھ اور بھی ہے یا یہ حکومت کی فنا و بقاکا سوال ہے یا حکومت اس مسئلے کو ایک لمبے عرصے تک الجھائے رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس کو مدعا بنا کر اقتدار پر قابض رہا جائے۔ پتہ نہیں سیاست کے اس گندے کھیل میں بھارت کے عوام اور کتنے دکھ جھیلیں گے، کتنے ماؤں کے گود اجڑیں گے، کتنے بہنوں کے بھائی سڑکوں پر بے رحمی سے مارے جائیں گے، کتنی عورتوں کے سہاگ اجڑیں گے، کتنے بچے یتیم ہونگے۔ کاش اے کاش حکمران طبقہ اس پر بھی کبھی غور کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ............ اسانغنی مشتاق رفیقی