یہودی سازش کا نظریہ اور مسلمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ


جرعات
مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کئی پریشانیاں اور مصیبتیں آئیں، کئی وبائیں پھوٹیں، شروع دورمیں ہی حضرت عمرؓ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا سے اسلامی لشکر کا ایک بہت بڑا دستہ جو بقول مورخین آدھی دنیا کو فتح کرنے کے لئے کافی ہوسکتا تھا، موت کے آغوش میں چلا گیا۔ کئی جلیل القدر صحابہؓ  اس وبا کا شکار ہوئے۔ لیکن کبھی کسی صاحب نظر مورخ نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ ان وباؤں اور پریشانیوں کے پیچھے یہود کی سازش کار فرما تھی۔ جب امت میں اخلاقی انحطاط اور زوال شروع ہوگیا تو یہ نظریہ جڑ پکڑا کہ مسلمانوں پر جو بھی مصیبتیں اور پریشانیاں آتی ہیں اُن کے پیچھے یہودی سازش ہوتی ہے۔ آج کے اس سائنسی دور میں بھی جب کہ ہر چیز واضح ہے، آدمی تھوڑی سی تحقیق سے اصلیت جان سکتا ہے، یہ کہنا کہ مسلمانوں کے موجودہ پریشانیوں کے پیچھے صیہونی سازش ہے اور اُن کا مقصد دجال کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے، در حقیقت اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کی چھپانے کی نادان کوشش ہے۔ کیسی عجیب بات ہے وہ امت جس کے پاس خدا کا آخری پیغام بغیر کسی تحریف کے موجود ہے، جس کے پاس آخری رسول کی سنت کی شکل میں زندگی گزارنے کا ایک مکمل سائنٹیفک طریقہ موجود ہے، وہ امت جس کے مومنین کی بصیرت کے بارے میں کہا گیا کہ وہ خدا کی آنکھ سے دیکھتے ہیں، وہ امت مسلسل سازش کا شکار باور کرائی جارہی ہے۔ اِس سارے کھیل کے پیچھے کچھ نام نہاد قائدین،دانشور اور علماء حضرات کی کوتاہ نظری، اور وقتی فوائد کا حصول ہے۔ ممکن ہے کسی مخصوص واقعے کے پیچھے سچ میں کوئی سازش رہی ہو،لیکن ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو سازش کے نظریے سے دیکھنے کی روش نے امت میں منفی سوچ، بے عملی کا رجحان اور اپنے آپ کو محدود کر لینے کی عادت کو جنم دیاہے، اس کی وجہ سے زوال کی رفتار اور تیز ہوگئی ہے۔
موجودہ دور میں ایک اور عجیب بات دیکھنے میں آئی ہے کہ وطن عزیز میں فاشسٹ طاقتیں جن کی بنیاد مسلمانوں کی مخالفت پر قائم ہے وہ مسلمانوں کے اس سازشی نظریہ کی مکمل تقلید کرتے ہوئے دیکھے جارہے ہیں۔ لیکن ان کی نظر میں سازشی طبقہ یہود نہیں مسلمان ہیں۔ تاریخ میں پائی جانے والی اپنی ہر ناکامی کا ٹھیکرا وہ مسلمانوں کے سر پر پھوڑ رہے ہیں۔ یہی نہیں وہ اپنے یہاں پائی جانے والی بھید بھاؤ اور ذات پات کے نظام کے لئے بھی مسلمانوں کو ہی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ لو جہاد سے لے کر حالیہ کرونا جہاد تک کے نظریے کے پیچھے وہ کس خوبی کے ساتھ اپنے سماج کی کمزوریوں اور ناکامیوں کو چھپانے کی کامیاب کوشش کررہے ہیں اس سے انکار ممکن نہیں۔لیکن ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن کا یہ نظریہ حقیقت میں ایک سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ بلکل اسی طرح ہمارے یہاں رواج پاجانے والا یہودی سازش کا نظریہ بھی در حقیقت جھوٹ اور غلط بیانی ہے، جس کو صحیح ثابت کرنے کے لئے آج تک کوئی ٹھوس ثبوت کہیں سے مہیا نہیں ہو سکا۔ 
علم کی غلط تشریح، عمل سے لاپرواہی، ہر اچھے بُرے کو خدا کی طرف منسوب کر کے اپنا دامن جھاڑ لینے کا مزاج، ظاہری چیزوں پر اتنا زور کہ اُسے ہی اصل سمجھنا، مسلمان ہونے کا اتنا زعم کہ اکثر سماجی برائیوں میں ملوث ہو نے کے باوجود جنتی ہونے کا یقین، ہرنئی چیز اور سائنسی دریافت کو اسلام مخالف قرار دے کر اس سے اجتناب کی تلقین لیکن انفرادی زندگی میں اُس سے بھر پور فائدہ اٹھانا، آج کل یہی ہماری زندگی ہے۔ اسلام کے روح سے عاری ہمارے اس طرز عمل کی وجہ سے دنیا بھر میں نہ صرف ہم ذلیل ہورہے ہیں بلکہ اسلام کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
کروناوائرس سے پھیلی وبا اور اس کی وجہ سے گھروں میں ہمارا یہ قرنطینہ قدرت کی طرف سے ہمیں سوچنے سمجھنے اور مستقبل کے لئے ایک لائحہ عمل طے کرنے کا عطیہ ہے۔ سوچئیے!!  ہماری موجودہ دُرگت کے حقیقی اسباب  تلاش کیجئیے، ہم سے کہاں کہاں کوتاہیاں ہوئی، کس کس جگہ ہم ٹھوکر کھا کر بھی سنبھلنے سے رہ گئے، ہمارے وہ کونسے قائدین، دانشور اور علماء ہیں جن کی غلط رہنمائی نے ہمیں تباہیوں کے گہرے کھائیوں میں ڈھکیل دیا، وہ کون سے نظریات اورفکر ہیں جن کی وجہ سے ہماری سوچ اور عقل پر جمود طاری ہوگیا۔ اپنے آپ کو احتساب کی سنگلاخ وادی سے گزارئیے۔ یقینا یہ ایک مشکل عمل ہے لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمار ا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ رہے تو ہمیں اس عمل سے گزرنا ہی ہوگا۔ اور پھرحکمت عملی کے ایسے نئے راستے بنانے ہوں گے جہاں سے ہمارا کارواں بے خوف و خطر گزر سکے،قائدین، دانشور اور علماء کے لئے ایسے اعلیٰ معیار مقرر کرنے ہونگے کہ وہاں تک کوئی کوتاہ نظر،جذباتی استحصال کرنے والا اور منافق پہنچ ہی نہ سکے، عقل و سوچ پر لگے جمود کے جالے کو صاف کر کے غور و فکر کی نئی شمعیں روشن کرنی ہوں گی۔ آنے والا وقت نجانے ہمارے لئے اور کیا کیا امتحانات لے کر آئے گا، اس کے لئے اگر ہم نے اپنے سابقہ غلطیوں اور ناکامیوں سے سبق حاصل نہ کی، کوئی مثبت لائحہ عمل ترتیب نہ دیا اور یونہی غفلت میں رہ گئے تو یقین جانئے تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔
۔۔۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ............ اسانغنی مشتاق رفیقی