تالہ بندی کے مثبت پہلو ........................... اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ
جرعات
کروناوائرس لاک
ڈاؤن شروع ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ اس وبائی عفریت سے چھٹکارے کی
کوئی راست ترکیب ابھی تک دریافت نہیں ہوسکی ہے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں قیدیوں کی
زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کوئی اس وبا کو خدائی آزمائش یا کار خدا قرار دے رہاہے
تو کوئی تجربہ گاہوں میں تیار کی گئی شر پرستوں کی سازش بتا رہا ہے۔ لیکن اس بات
پر سب متفق ہیں کہ اس سے بچنے کا واحد راستہ سماجی دوری اختیار کرنا اور گھروں میں
محدودہوجانا ہی ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں کہیں پیار و محبت کے ساتھ تو کہیں سختی
کے ساتھ عوام کو اعلیٰ سطح پر تالہ بندی نافذ کرکے گھروں تک محدود رکھنے کی لگاتار
کوششیں کررہی ہیں۔ اس کے باوجود وبا کی تیزی تا دم تحریر قابو میں آتی نظر نہیں
آرہی ہے۔ وطن عزیز میں بھی سیاسی ہنگاموں اور اسلامو فوبیہ سے متاثر غلط پروپگنڈوں
کے درمیان یہ وبائی مرض اپنا دائرہ وسیع کرنے میں کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔
ہم مسلمان ایک
جذباتی قوم ہیں، اس پر شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔ خاص کر بھارت میں جس قسم کے
حالات ہیں اس کے تناظر میں اگرہم میں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اس پر تالہ بندی
کے نام پر بے جا سختی کی جارہی ہے، ہمیں مسجدوں میں جاکر وہ بھی رمضان کے مہینہ میں
عبادت کرنے سے روکا جارہا ہے تو اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ لیکن،در حقیقت ایسا
سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہیں سیاست کا دخل اتنا زیادہ ہو کہ حقائق نظرنہ
آرہے ہوں۔سچائی پر جھوٹ کے دبیز پردے لگا کر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہو۔اس اچانک
آجانے والی افتاد اور اس کے نتیجے میں لاگو تالہ بندی کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی
بھر پور کوشش کی جارہی ہو۔ لیکن اگرہم جذبات سے اوپر اُٹھ کرزمینی حقائق کی روشنی
میں مسئلے کا جائزہ لیں تو ہمارے لئے اس میں بہتری اورطویل مدتی فائدے کے بہت سارے
مواقع نظر آئیں گے۔
پہلی بات،ہمارے
نزدیک رمضان کی عبادتوں اور رونقوں کا مرکز ہمیشہ مساجد ہی سمجھے جاتے رہے ہیں، لیکن
بھلاہو اس تالہ بندی کا کہ آج ہر گھر رمضانی عبادتوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پنج وقتہ
نمازیں جماعت کے ساتھ جس میں مستورات بھی شریک ہیں گھروں میں ادا ہورہی ہیں۔ نماز تراویح
کا اہتمام بھی گھروں میں ہورہا ہے۔ ایک مسجد کے بند ہونے سے محلے کا ہر گھر مسجد
بن گیا ہے، کیا یہ ایک مثبت تبدیلی نہیں ہے۔
دوسری بات، رمضان
کو غم خواری اور دل جوئی کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ غریبوں سے ہمدردی، بھوکوں کو
کھلانے پلانے کی اس ماہ میں خاص اہمیت ہے۔ تالہ بندی کی وجہ سے عوام کی اکثریت
محتاجوں اور ناداروں کے زمرے میں داخل ہوچکی ہے۔ ایسے میں ہمارے لئے یہ ایک سنہرا
موقع ہے کہ ہم اپنے زکواۃ صدقات خیرات وغیرہ سے بلا تفریق ِ قوم و مذہب، رنگ و نسل
ان کی مدد کو آگے آئیں اور رمضان کی برکتیں لوٹیں۔ جہاں اس سے ہمارے تعلق سے پھیلائی
گئی غلط فہمیاں دور ہوں گی وہیں ہمارے لئے دوسروں کے دلوں میں نرم گوشے پیدا ہوں
گے جو موجودہ حالات میں ہمارے لئے اشد ضروری ہے۔
تیسری اور آخری
بات، رمضان سے قرآن کا بہت مضبوط تعلق ہے۔ پروردگار عالم نے بنی نوع انسان کی بہتری
اور ہدایت کے لئے اپنی یہ آخری کتاب اسی مہینے میں آسمانی دنیا پر نازل کی تھی جو
بعد ازاں پیغمبر آخرالزماں ﷺ پر نازل ہوئی۔ اس حوالے سے اس کتاب کے ساتھ ہمارا جو
تعلق ہونا چاہئے وہ موجودہ دورمیں مفقود ہے۔ جو لوگ اس بات پر دکھی ہیں کہ وہ
رمضان کے اس با برکت مہینے میں مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنے سے محروم ہوگئے،
تراویح سے محروم ہوگئے، اعتکاف سے محروم ہوگئے انہیں شاید اس بات کی خبر ہی نہیں
کہ خدا کی آخری کتاب اپنے مکمل برکات کے ساتھ ان کی رفیق بنی ہوئی گھروں میں موجود
ہے۔ اس کتاب کو جسے آپ نے طاق نسیاں کے حوالے کر رکھا ہے نکالئے اور اُس کو اُسی کی
روشنی میں پڑھئے، مکمل یقین کے ساتھ کہ خدا اس کتاب کے ذریعے آپ سے راست مخاطب ہے،
یہ وہ کلام الٰہی ہے جس میں کوئی شک نہیں، یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے،
اس سے حاصل ہونے والا علم بر حق ہے، باطل نہ اس کلام کے آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے
سے، یہ کتاب لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لئے اُتاری
گئی ہے، یہ کتاب میزان ہے یعنی وہ ترازو جس کے ذریعے دوسری چیزوں کی قدر و قیمت طے
کی جائے گی، یہ کتاب فرقان ہے یعنی کھرے اور کھوٹے میں فرق کرنے کی کسوٹی اور یہی
وہ کتاب ہے جس کو نظر انداز کر دینے کی شکایت ہمارے اور آپ کے آقا ﷺ بروز قیامت
اپنے رب سے کریں گے۔
در حقیقت قدرت نے
آپ کوگھروں میں یکسوئی اور تنہائی میسر کر اکے ایک بہت بڑا انعام دیا ہے تاکہ آپ
ماہ رمضان کے ان بابرکت ساعتوں میں حالت روزہ میں مکمل توجہ اور انہماک کے ساتھ
اپنے رب سے قریب ہوسکیں، اس کے کلام کے ساتھ جڑ کر اپنی حیثیت پہچان سکیں، اس کلام
کے ارد گرد تفاسیر کے نام پر جو مسلکی جال بچھا رکھا گیا ہے اس سے بچتے ہوئے اس کے
صحیح معنی کو پاسکیں۔ اپنے رب کی معرفت حاصل کر سکیں۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment