کچھ کڑوی حقیقتیں اور سچائیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

جرعات

حقیقتیں اور سچائیاں اکثر کڑوی ہوتی ہیں۔ جو قوم یا گروہ یہ کڑواگھونٹ پینے سے کتراتی ہے،خوابوں اور خیالوں کی ایک مصنوعی دنیا  بنا کراُسی کو اصل کا درجہ دے کر اُسی میں مدہوش رہتی ہے وہ یا توخود مٹ جاتی ہے یا دوسروں کے ہاتھوں مٹا دی جاتی ہے۔ یہ قدرت کا اصول ہے۔

بر صغیر پر مسلمان تقریبا ایک ہزار سال سے زیادہ حکومت کرتے رہے۔ پھر آپسی جنگ و جدال، عیش پرستی، جاہ پرستی، آبا پرستی، اخلاقی زوال اور اندھی تقلید، حکومتی فرائض سے غفلت، دولت کی ہوس اور اقتدار کی خاطر آپسی سازشیں، ان سب میں مبتلا ہوکراپنی پہچان گنوادی۔ حاکم کی حیثیت سے گر کر غلام کے درجے پر پہنچ گئے۔ یہ پہلی ایسی کڑوی سچائی ہے جو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ پھر جنگ آزادی کے نام پر مسلمانوں میں تھوڑی ہلچل پیدا ہوئی لیکن نادانی اور ابن الوقت سیاسی نام نہاد رہنماؤں کے زیر اثر دو قومی نظریہ اپنا کر،تقسیم وطن کے نام پر ایک بہت بڑی سیاسی غلطی کر بیٹھے۔ اپنی بہت بڑی اکائی کو جغرفیائی سرحدوں کے ذریعے ٹکڑوں میں تبدیل کر کے جانتے بوجھتے مسلمانوں نے اپنی طاقت توڑ لی۔ یہ دوسری کڑوی سچائی ہے جس کا انکار ممکن ہی نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ اس غلطی کے لئے کس کو کس نے اکسایا، یا یہ کوئی سازش تھی، اس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن اپنے وجود کو خود لخت لخت کر لینے کی جو بھیانک بھول مسلمانوں سے ہوئی اسکی تلافی شایدہی کبھی ممکن ہوسکے۔

وطن عزیز میں حالات جس رخ جارہے ہیں اس سے یہ بات واضح ہے کہ مستقبل میں ہمارے لئے کوئی اچھی امید افزا بات یقینا نہیں ہے۔

آزادی کے بعد کے ستر سالوں میں اگر ہم ماضی سے سبق حاصل کرکے، سچائیوں اور حقیقتوں کو سمجھ کرکوئی لائحہ عمل وضع کر کے اس پر گامزن ہوتے تو ہو سکتا تھا جو حالت آج ہماری ہے وہ نہ ہوتی۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا،حقیقتوں کو نظر انداز کر کے خواب خرگوش میں پڑے رہے۔ اقتدار کا نشہ سب کچھ کھونے کے بعد بھی ہمارے ذہن سے نہیں اُترا۔ ہم نے یہی سمجھا کہ یہ وطن جس پر ہمارے آباواجداد نے برسوں حکومت کی ہے، اس وطن کو بنانے سنوارنے میں بے دریغ اپنا خون بہایا ہے،اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا الزام ہمارے سر پر ہونے کے باوجود، اس میں ہمارا حصہ ہمیشہ تسلیم کیا جائے گا۔ ہم ہمیشہ سیاسی اقتدار کے لئے سرگرداں رہے۔ معاشی، تعلیمی اور سماج محاذ پر کبھی ہم نے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس کے لئے قصور وارہمارے نام نہاد رہبران، مذہبی قائدین اور دانشوران ہی نہیں ہم خود بھی ہیں، کیونکہ ہم نے ماضی کے تلخ تجربوں کے باوجود دوسروں پر اندھا اعتماد کیا، تقلید کا نشہ ہم پر اس قدر سوار رہا ہے ک ہم نے اپنے نام نہاد قائدین کے ہر آواز پر لبیک کہا، یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ اس کا نتیجہ آگے چل کر ہمارے لئے کس قدر پریشانیاں لا سکتا ہے۔ ہماری بد نصیبی یہ بھی رہی کہ ہم نے جن کو اپنا نمائندہ بنایا، ان میں کی اکثریت دور اندیشی نام کے کسی چیز سے واقف ہی نہیں تھی، وقتی مفادات اور ذاتی نفع کے لئے انہوں نے سچائی اور حقائق کو ہمیشہ ہم سے چھپا ئے رکھا۔

سماج میں دوسرے طبقوں کے ساتھ روز روز کی کشمکش، بڑھتی ہوئی نفرتیں اور دوریاں، ہر موڑ اور ہر راہ میں تعصب، ان سب کے باوجود ہم یہی سمجھتے رہے کہ یہ سب وقتی باتیں ہیں، بہت جلد بردران وطن انہیں فراموش کر دیں گے اور ہمارے ساتھ بھائی چارگی کی فضا قائم کرلیں گے تا کہ ملک میں امن رہے اور ترقی کی رفتار تیز ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، ہماری غفلت اور خوش فہمی ہمیں لے ڈوبی۔ آج ہم ایک ایسے موڑ پر ڈھکیل دئے گئے ہیں جہاں سے دور دور تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ فسطائیت کا زہر سماج میں اتنا بھر دیا گیا ہے کہ قدرتی آفات، اتفاقی حادثات اور دوسروں کے گناہوں کے لئے بھی ہمیں ہی دوشی قرار دے کر سماج ہمیں مجرم ماننے لگا ہے۔ زمین ہمارے لئے تنگ کر دی گئی ہے، ہر نکڑ پر ہم سے وفاداری کا سرٹیفیکیٹ مانگا جانے لگا ہے۔ ان سب کے باوجود، ہمارے نام نہاد، جسم سے ہی نہیں عقل سے بھی بوڑھے ہوچکے قائدین آج بھی عہدے اور اقتدار میں حصہ داری کے خاطر آپس میں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کر نے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر کسی کو اپنی جماعت، اپنا فرقہ، اپنا مسلک ہی سب کچھ ہے وہ اس کے لئے دوسری جماعتوں، فرقوں اور مسلکوں کو ختم کرنے کی جنون میں ہمیشہ مبتلا رہتے ہیں اور ہم بھی فرقہ، مسلک، جماعت کے دائروں سے باہر نکل کر کچھ بھی سوچنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ آزادی کے بعد کے ستر سالوں سے ہم میں موجود، غفلت، خوش فہمی، اندھا اعتماد، سماج میں بڑھتی ہوئی نفرتوں کے باوجود شتر مرغ کی طرح اپنے آپ کو بغیر محفوظ کئے محفوظ سمجھنے کی ضد، تعلیم، معاشی اکائیاں، معاشرے کے لئے طبی مراکز، تحقیقی مراکز، جیسے ضروری چیزوں سے زیادہ شادی کے رسومات، اجتماعات، مذہبی مدرسوں کے نام پر مسلکی تعلیم، جیسے غیر ضروری چیزوں میں وقت، دولت اور خود کو لگانے کا رجحان، یہی سب آج ہماری موجودہ گراوٹ اور ذلت کے اسباب ہیں اور یہ وہ تیسری کڑوی سچائی اور حقیقت ہے جس کو تسلیم کئے بغیر ہم آگے کے لئے جو بھی لائحہ عمل مرتب کریں گے وہ ناقص رہے گا۔

وقت کسی لئے کبھی نہیں رکتا، قدرت صرف انہیں کا ساتھ دیتی ہے جو حالات کے نبض پر ہاتھ رکھ کر میدان عمل میں اتر تے ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے سچائیوں اور حقیقتوں کو تسلیم کر نا ہوگا۔ ہم سے جو بھی غلطیاں،بھول اور نادانی ہوئی ہیں اُنہیں فراموش کئے بغیر، آگے لئے ایک مظبوط لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔فسطائیت کتنی بھی مظبوط نظر آئے،چونکہ اس کی بنیاد جھوٹ اور مکر پر ہوتی ہے اس لئے وہ اندر سے کھوکھلی ہوتی ہے۔ اس سے خوفزدہ ہونا بزدلی ہے۔ مضبوط خود اعتمادی کے ساتھ بس ایک ٹھوس طویل منصوبہ بند ی کی ضرورت ہے، اس کے ذریعے ہم آسانی سے خود کو اور اپنے آنے والی نسلوں ہر قسم کے ظلم وستم سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور وطن عزیز میں امن کی فضا پھر سے لاسکتے ہیں۔اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔


Comments

Popular posts from this blog

اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ............ اسانغنی مشتاق رفیقی