ہمارا معاشرہ، تعلیم اور جوابدہی کا احساس ................................. اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ
جرعات
بات بہت اچھی لگتی ہے جب ہم سنتے ہیں کہ تعلیم کی اسلام میں بہت اہمیت ہے، پہلی وحی جو آقائے دوجہاں حضرت محمد ﷺ پر اُتری اس کی شروعات بھی”پڑھو“ سے ہوئی، آپ ﷺ کا یہ قول کہ علم حاصل کرو، اس کے لئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، بڑے فخر سے نقل کیا جاتا ہے، علماء کو انبیا ء کا وارث بتایا جاتا ہے،علم اور خاص کر علماء کی فضیلت پر روزانہ کروڑوں الفاظ لکھے اور بولے جاتے ہیں۔ لیکن جب تصویر کے دوسرے رخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ علم سے سب سے زیادہ بے اعتنائی کرنے والا کوئی معاشرہ اگر دنیا میں موجود ہے تو وہ ہمارا ہی معاشرہ ہے۔ ہمیں اصل میں پتہ ہی نہیں کہ علم کیا چیز ہے، اس کے دھارے کہاں سے پھوٹتے ہیں، یہ کیسے حاصل کیا جاتا ہے، انسان اس کو پا کر کیا سے کیا بن جاتا ہے۔ پدرم سلطانِ بود کی گردان کرتے کرتے ہم اس قدر زعم میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ اپنے علمی زوال کے اسباب پر غور کرنے کے بجائے جہالت اور ہٹ دھرمی کو اپنا طرہء امتیاز سمجھتے ہیں اور اگر کبھی علم کی طرف متوجہ ہوتے بھی ہیں تو رٹنے اور رٹانے سے آگے نہیں بڑھتے،تجسس اور تحقیق ہمارے ہاں شجرِ ممنوعہ ہے۔
وہ تمام معاشرے اور سماج جن کی کبھی کوئی حیثیت نہیں تھی وہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر کہیں سے کہیں پہنچ چکے ہیں۔ علم کی روشنی سے اُن کے در وبام جگمگا رہے ہیں اور ہم جو کبھی کاروانِ علم کے سرخیل ہوا کرتے تھے اپنی نا اہلی اور کاہلی کی وجہ سے اپنا یہ منصب گنوا کر جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں،اخلاقی اور سماجی برائیوں کے دلدل میں دھنستے جارہے ہیں، ا س پر شرمندہ ہونے کے بجائے اِسے اغیار کی سازش یا تقدیر کا لکھا بتا کر اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دے لیتے ہیں۔ ہمارے مدرسے اور تعلیم گاہیں،کبھی جہاں سے فیض پانے والا ہر شخص دانشور، عالم اور صاحب بصیرت بن کر نکلتا تھا، آج ابن الوقت، نکمے اور اندھ بھگت تیار کرنے کے کارخانے بن چکے ہیں۔نہ اساتذہ میں خلوص وجذبہ موجود ہے نہ طلباء میں شوق و ارادہ، اس پر طرہ یہ کہ ہمارے وہ لوگ جو خدمت کے نام پر ان مدرسوں اور تعلیم گاہوں کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں ان میں جواب دہی کا فقدان حالات کو بد سے بدتر کر رہا ہے۔ لیکن ہمیں نہ اس کی فکر ہے نہ اس کے خاطر ہم اپنا محاسبہ کر نے کے لئے آمادہ ہیں۔ہم میں کا ہر فرد دوسرے کو الزام دے کر اپنا دامن جھاڑ لیتا ہے۔ اگر کوئی ہمت کر کے ان اجتماعی بد عنوانیوں اور غلطیوں پر سوال اُٹھاتا ہے، یا تو اس کی اس قدر ہجو کی جاتی ہے کہ وہ بیچارا اپنا منہ لے کہیں روپوش ہوجانا ہی بہتر سمجھتا ہے، یا اُس پر برادری کے ذریعے دباؤ ڈال کر خاموش کردیا جاتا ہے، یا منصب اور عہدے کے قیمت پر اُس کامنہ بند کردیا جاتا ہے۔
یقین رکھئیے اگر حالات اسی ڈگر پر گامزن رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا معاشرہ اور سماج مکمل طور پر ناکارہ اور نااہل قرار دے کر الگ تھلگ کردیا جائے گااور ہم لوگ نئے اچھوت بن جائیں گے۔ ادنی اور گھٹیا روزگار کے ذرائع ہمارا مقدر بنا دئے جائیں گے۔ اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے ہمیں جاگنا ہے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہم میں کے ہر فرد میں جب تک جوابداری کا احساس بیدار نہیں ہوگا، تعلیم کی صحیح قدر ہمارے دلوں میں پید ا نہیں ہوگی، کاہلی اور سستی کو خیر باد کہہ کر جب تک انتھک محنت کی طرف ہم مائل نہیں ہوں گے، حالات کو سدھارنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔طلباء کوصحیح نہج دیں، تعلیم کے ہر ذرائع اُن پر ’وا‘کریں، زمانے کی بدلتے روش کے ساتھ چلنا اُن کے لئے ممکن بنائیں،اساتذہ میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرائیں، انہیں ان کے مقام اور فرائض سے آگاہ کرائیں، اگر ان سے کہیں کوتاہی ہورہی ہے تو ہر قسم کے عصبیت سے بالا تر ہوکر سختی سے انکا احتساب کریں، جو لوگ خدمت کے نام پر تعلیمی اداروں کا باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں انہیں جوابدہی کے لئے آمادہ کریں، تھوڑی سی بھی بدعنوانی اور اپنے فرائض سے کاہلی کرنے پر ان سے سختی سے باز پرس کریں،ممکن ہے اگر ہم ان سب باتوں پر عمل کرنے کی ٹھان لیں،کمر کس کر میدان عمل میں اُتر جائیں تو حالات معجزاتی انداز میں بدلنے لگیں گے اور وقت کا دھارا ہمارے حق میں بہنے لگے گا، ان شاء اللہ۔ مَن جَدًوَجَدَ(جس نے محنت کی اُس نے ثمر پالیا)۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔۔۔
Comments
Post a Comment