٭کیا ہی اچھا ہوتا کہ عرب حکمراں اپنے ضمیر اور عوام کی آواز پر کان لگا کر پڑوسی اسلامی ممالک کے ساتھ اشتراک کی راہیں نکال کر اسرائیل اور امریکہ کو مجبور کر کے فلسطینی مسئلہ کا حل ڈھونڈکر خطے میں حقیقی اور دیر پا امن و امان قائم کروانے میں کردار ادا کرتے۔۔۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے پر ایک تبصرہ پہلی بات عرب حکمرانوں میں ضمیر نامی بھی کوئی شئے موجو د ہے اور وہ عوام کی آواز سننے کی استطاعت رکھتے ہیں اس پر یقین کرنا مشکل ہے۔ دوسری بات پڑوسی اسلامی ممالک سے اشتراک یہ ناممکن ہے کیونکہ ایسا کوئی حرف اُن کی لغت میں نہیں پایا جاتا۔ تیسری بات فلسطینی مسئلے کا حل اور خطے میں امن و امان یہ حکمرانوں کا مسئلہ نہیں ہے، ان کا مسئلہ اپنی کرسی کی حفاظت اور اس کی بقا ہے اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تو شروعات ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ٭تبلیغی جماعت معاملہ: بامبے ہائی کورٹ نے 29 مقدمات رد کئے، کہا ”لگتا ہے ہے تبلیغی جماعت کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے کہا ک...