اطاعت کا جذبہ اور اختلافات .......................... اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

 

جرعات

حضرت خالد بن ولیدؓ کا عین اس وقت جب ان کی سپہ سالاری میں فتوحات کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا،خلیفہ وقت حضرت عمرؓ کے ہاتھوں معزول کیا جانا تاریخ اسلام کا ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ جس پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اصحاب رسولؐ میں اطاعت اولی الامر کا جذبہ اس حد تک سرایت کئے ہوئے تھا کہ وہ بظاہر اپنی تذلیل گورا کر لیتے تھے لیکن دربار خلافت سے جو حکم نامہ جاری ہوجائے اس کی تعمیل میں ایک ساعت کی بھی دیر نہیں لگاتے تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں اس سبق آموز واقعہ کی مکمل تفصیل موجود ہے کہ کس طرح مجمع عام میں قاصد جو معزولی کا حکم نامہ لے کر آتا ہے معزولی کی علامت کے طور پرحضرت خالد بن ولیدؓ کی ٹوپی اتار تا ہے اور فاتح عراق و شام بغیر چون و چرا کئے خاموشی سے خلیفہ وقت کی حکم کی تعمیل کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ اسلامی نظام میں اہمیت شخصیتوں کی نہیں اصول و ضوابط کی ہوتی ہے۔ جب تک ایسی اطاعت کا جذبہ امت میں موجود رہا امت اتحاد و اتفاق کے ساتھ ہر اعتبار سے ترقی کی راہ پر گامزن رہی لیکن جیسے جیسے اس جذبہ میں فرق آتا گیا امت میں تفرقہ پڑ نے لگا اوروہ تنزلی کی راہ پر بڑھتی چلی گئی۔

جو لوگ اپنی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے،اپنی تاریخ کو صرف تذکرہ تک محدود رکھتے ہیں وہ کبھی زندگی کی دوڑ میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ تاریخ صرف اختلافی مباحث کو ہوا دینے یا دشمن کے خلاف انتقامی جذبے کو زندہ رکھنے کے لئے نہیں تدوین کی جاتی بلکہ اس سے سبق حاصل کر کے اپنی روز مرہ کی زندگی کو بہتر بنانا ہی اصل مقصد ہے۔ ہماری سب سے بڑی غلطی اگر مانا جائے تو یہی ہے کہ ہم تاریخ کو سبق حاصل کر نے کے لئے نہیں، برکت کے لئے یاقصہ کہانی سمجھ کر یا فخر کر نے کے لئے پڑھتے ہیں۔ انسانی زندگی میں مسائل ہمیشہ ایک جیسے رہتے ہیں، فرق صرف زمان و مکاں کا ہوتا ہے۔ ہمارے ہر مسئلے کا حل ہماری تاریخ کے صفحوں میں موجودہے اگر ہم دیکھنا اور قبول کرنا چاہیں تو۔۔۔۔!!

موجودہ دور گویا انانیت کا دور ہے، یہاں کا ہر کوئی صرف اپنے آپ کو مختار کل سمجھتا ہے۔ بڑے سے بڑے اداروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے اداروں میں بھی آپسی رسہ کشی ایک عام سی بات ہے۔وہ ادارے کا صدر ہو یا ایک معمولی چپراسی،دوسروں سے یوں پیش آتے ہیں گویا سارا  ہفت اقلیم اُنہی کی دسترس میں ہے۔ اگر کبھی اختلاف بڑھ جائے اور نوبت کسی فریق کو ادارے سے رخصت کرنے کی آجائے تو پھروہ ہنگامہ ہوتا ہے کہ الامان الحفیظ۔ وہ لوگ بھی جو انبیا ء کے وارثین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جن کی تحریریں اور تقریریں صحابہ کرامؓ کے ذکر کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتیں، جو اپنے آپ کو دین حنیف کا ٹھیکیدار باور کراتے ہیں، منبر رسولؐ اور محرابِ رسولؐ پر جن کی اجاراداری اظہر من الشمس ہے، ایسے لوگ بھی جب انانیت کے خمار میں مبتلا ہوکر اپنے آپ کو معصوم عن الخطا باور کراتے ہوئے ایسی زبان بولنے لگتے ہیں جس میں ساری سچائی اور حق انہیں کی طرف اور برائی اور ظلم فریق مخالف کی طرف نظر آتا ہو، یہی نہیں اس کے حق میں ہر قسم کی ہجو گوئی جائز سمجھتے ہوئے اس کی تحقیر عامیانہ انداز میں بھی پیش کرنے سے بھی باز نہیں آتے، تو تعجب ہوتا ہے۔ ایک عامی سے تو ایسی بات کی امید ہوسکتی ہے لیکن منبر رسولؐ کے محافظین سمجھے جانے والے طبقے سے جب ایسی باتوں کا ظہور ہوتا ہے تو یہ نہایت افسوس کا مقام ہے۔

 ایک بات بلکل واضح ہے کہ امت میں نہ اب اطاعت کا جذبہ باقی رہا ہے نہ اختلافی مباحث میں تحریم و تکریم کا۔ ذرا سی کوئی بات ہوجائے، ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا الجھتے ہیں کہ ہمیشہ کے لئے کدورتیں باقی رہ جاتیں۔ بعض مواقع پر تو ہم اپنے ساتھ نام نہاد بھگتوں کا ایک غول لے کر فریق مخالف پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ اول بات وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں اختلاف رونما ہوا،پھر بڑھتے بڑھتے ایک وسیع منظر نامے کو گھیر لیتی ہے اور یہیں پر ختم نہیں ہوتی، ذاتیات سے ہوتے ہوئے آباؤ اجداد تک پہنچ جاتی ہے۔ بغیر تحقیق کے سچ اور جھوٹ کی تمیز کئے بغیر ہر سنی سنائی کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے ہم خود اس کے گواہ رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ہمارے اس طرز عمل سے سماج میں خود ہمارے تعلق سے کیا پیغام جائے گااور نہ اس بات کی پرواہ ہوتی ہے کہ ہم جس کی ہجو سرائی کر رہے ہیں کل اس سے واسطہ بھی پڑ سکتا ہے۔

علم ایک روشنی ہے۔ جس کے پاس علم آجاتا ہے اس کے تعلق سے عوام میں کئی امیدیں پیدا ہوجاتی ہیں۔لوگ ہر اچھے برے حالات میں رہنمائی کے لئے اس کی طرف دیکھتے ہیں۔ اس کی عزت و تکریم کرتے ہیں تاکہ اُس کے پاس جو روشنی ہے اس سے فیض پاسکیں۔  جب کوئی عالم، اس کا غلط مطلب لے لے، عوام سے ملنے والی اس عزت و تکریم کو اپنا کوئی ذاتی ہنر سمجھ کر ایسی حرکتیں کرنے لگے جو اس کے شایان شان نہ ہو، اپنی ذاتی مفاد کے لئے دوسروں پر کیچڑ اچھالنے لگے تو نہ صرف اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے بلکہ اس کے اس طرز عمل سے دوسرے عالموں پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ ادارے، عہدے، منصب، یہ سب وقتی چیزیں ہیں، ضروری نہیں کہ آج یہ جن کے پاس ہیں کل بھی انہیں کے پاس ہوں۔ ان کے آجانے پر فخر کرنا اور ان کے چلے جانے پر مایوسی میں مبتلا ہوکر معیار سے گری ہوئی حرکتیں کرنا ایک عامی کو تو شوبھا دیتا ہے لیکن ایک عالم کے لئے اچھی بات نہیں ہے۔

سپہ سالاری سے معزول کئے جانے پر حضرت خالد بن ولیدؓ کا طرز عمل قیامت تک امت کے لئے ایک بہترین مثال ہے۔ خاص کر ان کے لئے جو اداروں یا جماعت سے معزول کردئے جاتے ہیں یا بر طرف کر دئے جاتے ہیں، چاہے اس میں ان کی کوئی غلطی ہو یا نہ ہو۔ اگر ہم اس طرح کے حالات آجانے پرسیف اللہ کے لقب سے نوزاے گئے حضرت خالدبن ولید ؓ کی تقلید کرلیں تو اس سے اُخروی فلاح تویقینی ہے ہی لیکن یہاں بھی لوگوں میں ان شاء اللہ ہمارا وقار اور بلند ہوگا۔اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔

Comments

Popular posts from this blog

اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ............ اسانغنی مشتاق رفیقی