تعلیم گاہیں، مدارس اور نصاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ
جرعات
آزادی کے بعد برادران وطن کی ایک بڑی اکثریت ہندو، سکھ، بدھ متی، جینی، عیسائی وغیرہ نے تعلیم کے میدان میں جو شاندار ترقی کی ہے وہ قابل داد ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کے جتنے مواقع میسر آئے اُن سے سو فیصد مستفیض ہونے کی کوشش میں،لگن اور محنت کے ساتھ مکمل کامیابی حاصل کر کے آج یہ لوگ اتنے بلند مقامات پر براجمان ہیں کہ جنہیں دیکھ کر رشک آتا ہے۔ لیکن افسوس!ہم مسلمان، جن کے نزدیک تعلیم کا حصول بنیادی فریضہ قرار دیا جاتا ہے وہ اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔حالات اور حکومتوں کو دوش دینے کے بجائے اگر ہم اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھ لیں تو اس بات کے لئے کافی ہے کہ چلو بھر پانی میں شرم سے ڈوب مریں۔
انگریزوں سے ورثہ میں ملی تعلیمی نظام
کو ہم نے بغیر غور و خوص کہ آزادی کے بعد بھی آگے بڑھایا، عصری اور دینی علوم کی
جو تفریق قائم تھی اُسے بغیر چھوئے اپنے نسلوں پر تھوپا اور یوں تعلیم کے میدان میں
بھی دو لخت ہوگئے۔ یہ اور بات کہ دو ٹکڑے ہو کر بھی کسی بھی ایک دھڑے سے کوئی
کارہائے نمایاں انجام نہ دے سکے۔
عصری تعلیم کا جھنڈا سر سید نے بلند کیا،
ان کا مقصد مسلمانوں میں عصری تعلیم کو عام کرنا تھا تاکہ مسلمان زمانے کے نباض بنیں،
حالات اور وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے پاسکیں اور
ترقی کی دوڑ میں قوم و ملت کی رہنمائی کرسکیں۔ لیکن ان کی تحریک سے مستفیض ہو کر
ترقی کی بلندیوں کو چھونے والوں نے ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں
دکھائی۔گاؤں گاؤں، شہر شہر، اگر ان کی تحریک پہنچائی جاتی اور ہر کچے پکے مکانوں
کے پاس عصری تعلیم گاہیں چھوٹے اور بڑے پیمانے پر جہاں جس کی جتنی ضرورت ہے قائم کی
جاتی تو آج نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ افسوس ایسا نہیں ہوا اور دھیرے دھرے جو تعلیم
گاہیں قائم ہوئیں ان کا معیار بھی گرتا چلا گیا۔ یہ تعلیم گاہوں سے زیادہ سرمایہ
داروں کے مفادات کی حفاظت کر نے کے لئے غلام اور مشین بنانے کے کارخانے بن گئے۔
دوسری طرف دینی تعلیم کے نام پر گاؤں
گاؤں شہر شہر، مدرسوں کا جال بچھایا گیا۔ لیکن یہاں بھی افسوس اس بات کا ہے کہ جس
تعلیمی نصاب کو عام کرنے کے لئے یہ سب کیا گیا وہ زمانے کے مزاج کے موافق نہیں
تھا۔ یہی نہیں بلکہ ان مدرسوں میں دین سے زیادہ مسلک، مخصوص فکر کی تعلیم کو عام کیا
گیا۔ ان سب کی وجہ سے سماج میں ایک طرف ماضی پرستی عام ہوئی تو دوسری طرف مسلکی
اور مکتب فکر کے جھگڑے انتہا کو پہنچنے لگے۔ فارغین مدرسہ کی ایک بڑی تعداد بدلتے
حالات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے زمانے سے شاکی ہوگئی اورجب اپنے لئے ترقی کے
راستوں کو مسدود پایا تو شدید نفسیاتی الجھنوں میں گرفتار ہو کر لا یعنی بحث و
تکرار میں الجھ کر سماج میں انتشار پھیلانے لگی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
موجودہ دور ترقی کے نام پر ایک ایسی
اندھی دوڑ کا ہے جس کے اختتام پر کیا ہے اس کی کسی کو خبر نہیں۔ بحیثیت مسلمان یہ
ہمارا فرض اولیں ہے کہ ہم انسانیت کو بھٹکنے سے بچائیں۔ اس کے لئے ہمیں حالات کا
صحیح علم ہونا ضروری ہے۔ یہ صحیح علم ہمیں کہاں سے ملے گا۔ ہمارے پاس موجود عصری
تعلیم گاہیں ہمیں کلرک اور میکانیک تو بناسکتی ہیں لیکن دانشور نہیں او ر چونکہ یہ
تعلیم گاہیں حکومت کی راست نگرانی میں رہتی ہیں اس لئے اس کے نصاب میں ہم اپنے
مطلب کے حصول کے لئے تبدیلی بھی نہیں لاسکتے۔ جہاں تک مدرسے کی بات ہے ان میں جو
نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ پڑھ کر ہم مسلکی شدت پرست، فتویٰ نویس، ناقل تو بن سکتے ہیں
لیکن اجتہادی اور عبقری صلاحیتیں ہم میں پیدا نہیں ہوسکتیں۔ اس کے لئے پہلے نصاب میں
زمانے اور حالات کے مطابق انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ چونکہ مدرسوں کا نظام بفضل
خداآ ج بھی مکمل مسلمانوں کے ہاتھ میں ہی ہے، حکو مت کا اس میں کوئی دخل نہیں اس
لئے یہ بات ممکن ہے۔
ملک بھر کے مدرسوں سے وابستہ ارباب ِ حل و عقد، مسلکی،فکری اور
علاقائی تعصبات سے اوپر اُٹھ کر امت کے وسیع مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر سر
جوڑکر بیٹھیں، ایک ایسا نصاب ترتیب دیں جس میں قرآن و سنت کے ساتھ دین کی بنیادی
باتیں ہو جن پر کسی کو کوئی اختلاف نہ ہو، ان کے ساتھ عصری تعلیم کی بنیادی چیزیں
بھی شامل ہو تو یہ ہماری آنے والی نسلوں کو علم و دانش کی بلندیوں تک پہنچانے کی ایک
کامیاب سعی ہوگی۔اس بات کی مکمل کوشش ہوکہ اس نصاب میں کوئی بھی ایسی بات نہ رکھی
جائے جس سے ایک نیا مکتب فکر پیدا ہونے کا اندیشہ ہویا موجود کسی مکتب فکر کوزک
پہنچتی ہو۔ یہ نصاب اتنا مکمل ہو کہ اس کی تکمیل کے بعد طالب علم ملکی اور عالمی
سطح کے تمام مسابقتی امتحانوں میں شریک ہو کر نمایاں کامیابی حاصل کرسکیں۔
Comments
Post a Comment