وتعاونو اعلی البر والتقوی (سورۃ المائدۃ۔ ۱) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ
وتعاونو اعلی البر والتقوی ۔۔ سورۃ المائدۃ۔1
اور ایک دوسرے کی
نیک کام اور پرہیزگاری کے کاموں میں مدد کیا کرو۔
انسان ایک معاشرتی
حیوان ہے، وہ کبھی بھی تنہا اور اکیلا زندگی گذار نہیں سکتا، اسے زندگی کے ہرموڑ
پر ایک ساتھی اور سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اپنی بنیادی ضرورتوں کے لئے اُسے ایک
دوسرے کا محتاج ہونا پڑتا ہے، یہ قانون فطرت ہے اور اس سے فرار ممکن نہیں۔ اسلام ایک
فطری دین ہے، اس کے احکامات انسان کی اِس فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔
چاہے وہ حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد، دونوں حقوق کی ادائیگی کے لئے جو بھی قوانین
اتارے گئے ہیں ان میں معاشرہ کا کردار بہت اہم ہے۔فرض نماز جو ایک اہم عبادت ہے جس
کے بغیر دین کا تصور مکمل نہیں ہوتا، اس کے لئے اہم شرط جماعت کی ہے۔ مسجد کا تصور
بھی ایک دوسرے کو جوڑے رکھنے کے لئے بنایا
گیا ہے۔ زکواۃ ایک اہم عبادت ہے، لیکن
اس کا مقصدبھی معاشرتی رشتوں میں مضبوطی لانا ہے۔ روزہ جوبظاہر انفرادی عبادت نظر
آتا ہے لیکن اس میں بھی افطاری کے وقت اجتماعیت کو احسن قرار دیا گیا ہے اور روزہ
کا مقصد ہی ایک دوسرے کی غم خواری بتایا گیاہے۔ حج عالمی معاشرے کی تشکیل کی طرف ایک
اہم قدم ہے، یہ صرف ایک عبادت نہیں بلکہ مختلف جغرافیائی خطوں، تہذیبوں کا ایک ایسا
جوڑ ہے جو معاشرتی یکتائی کی واضح مثال
ہے۔
معاشرہ اسی وقت
مکمل اور مضبوط مانا جاسکتا ہے جب اس کے تمام افراد آپس میں کسی نہ کسی اعتبار سے
مربوط اور جڑے ہوئے ہوں۔ دنیا میں جتنے بھی معاشرے تہذیب آفتہ قرار دئے گئے ہیں ان
کا سب سا بڑا وصف یہی ہے کہ وہ آپس میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہر بات پر
جمے رہتے ہیں۔ اسلام اور دوسری تہذیبوں میں ایک نمایاں فرق یہ بھی ہے کہ اسلام صرف
نیکی اور پرہیزگاری کے معاملات میں ایک دوسرے کاساتھ دینے کا حکم دیتا ہے،شر اور
برائی میں ایک دوسرے کو روکنے کا، لیکن دوسری تہذیبیں نیکی ہویا برائی اپنے معاشرے
اور سماج کے ساتھ جڑے رہنے کی ضد رکھتے ہیں۔
الحمداللہ
مسلمانوں میں انتشار اور انارکی کے اس دور میں بھی بظاہر جو معاشرتی یکتائی نظر آتی
ہے وہ انہیں احکامات کی بازگشت ہے۔ دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے لیکن مسجدوں میں
آج بھی امیر و غریب چھوٹا بڑابغیر تفریق کے ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہیں،
حج میں کالے گورے، عربی عجمی مشرق مغرب کا کوئی تعصب نظر نہیں آتا۔کاش اندرون
معاشرہ میں بھی یہ بات جاری ہوتی، لیکن ایسا نہیں ہے۔ بظاہر ایک دوسرے کے ساتھ ایک
ہی صف میں کھڑے ہوئے یہ مسلمان ایک دوسرے کے خلاف کتنا بغض رکھتے ہیں اس کا اندازہ
کرنا ہے تو کبھی ان کے نجی مجلسوں اور محفلوں میں جا کر دیکھ لیں۔ ایسا لگے گا
جونہی محفل اور مجلس برخاست ہوگی تلواریں اور طمنچے نکل آئیں گے، یہ جنگ کا سا
ماحول آج کل ہمارے معاشرے کا جزو لاینفک ہوگیا ہے۔ نیکی اور پرہیز گاری میں ساتھ دینے
کی بات اب ایک خواب بن کر رہ گئی ہے اور ان سب میں آگے آگے جاہل عامی طبقہ نہیں
دانشور اور عالم سمجھا جانے والا پڑھا لکھا طبقہ ہے۔
ہر شہر میں
بزرگوں کے قائم کردہ کئی فلاحی ادارے موجود ہیں، جن میں ہر ایک کا بنیادی مقصد
چاہے وہ تعلیمی ادارے ہو، سماجی بہبودی کے ادارے یا دینی تبلیغ و دعوت کے ادارے، یہی
ہے کہ سماج اور معاشرے میں آپسی تال میل مضبوط ہو، ترقی کی رفتار میں تیزی آئے،
آپسی غم خواری اور تعاون کا مزاج پروان چڑھے۔ شاید کبھی ایسا ہی رہا ہو لیکن آج کل
ہر ادارہ ایک نوابی قلعہ بن گیا ہے، کوئی ایک ادارہ دوسرے ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ایک
تعلیمی ادارہ دوسرے تعلیمی ادارے کو حریف کی طرح دیکھتا ہے، اس کے خلاف غلط
پروپگنڈہ کرنے سے بھی نہیں چوکتا، اگر بات مذہبی تعلیمی ادارہ اور عصر ی تعلیمی
ادارہ کی آجائے تو رب کی پناہ! گمراہی اور کفرکے فتوے جاری ہونے میں بھی دیر نہیں لگتی، ایک ہی گلی میں
آمنے سامنے برسوں رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے تعاون تو دور کی بات کبھی بھولے
بھٹکے ہی سہی آپس میں خیر سگالی دوروں کی توفیق نہیں ہوتی۔سماجی بہبودی کے نام پر
قائم اداروں پر براجمان قوم و ملت کے خدمت گاروں سے جب نیکی اور پرہیزگاری کے
کاموں میں تعاون کی بات کی جاتی ہے ایسے دیکھتے ہیں جیسے ان کے قلمرو میں نقب لگا
کر گھسنا چاہتے ہیں۔ اگر پھر بھی ڈٹ کر دست سوال دراز کریں تو اپنے وضع کردہ نام
نہاد اصولوں کی دہائیاں، در حقیقت اپنی انا کی تسکین ااور شہرت کا حصول اصل مقصد،
نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں مکمل تعاون تو دور زبانی تعاون دینے سے بھی ایسا
گریز جیسے حرام کے مرتکب ہونے سے بچ رہے ہوں۔دینی تبلیغی و دعوت کے اداروں میں ایک
دوسرے کے خلاف اتنی شدت ہوتی ہے کہ ایسا لگتا ہے اگر ان کا بس چلے تو فریق مخالف
کو دوزخ میں دھکیل کر ہی دم لیں گے، بھلے سے اس کوشش میں ان کے ہاتھ سے ان کی جنت
ہی کیوں نہ نکل جائے۔
قرآن کے واضح حکم
کے باوجود کہ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو،ہمارا اُس کے
برعکس رویہ نہ صرف ہماری بدبختی کی علامت ہے بلکہ ہماری تباہی کا اعلان بھی۔ اگر
ہم بحیثیت اداروں کے کرتا دھرتا، استطاعت رکھتے ہوئے بھی محض اپنی انا کی تسکین
اور دوسرے ادارے والوں سے حسد اور بغض کی وجہ سے یا ذاتی رنجش اور دشمنی کے سبب یا
شہرت کی طلب میں اس قرآنی حکم سے منہ موڑ رہے ہیں تو یاد رکھیں کل قیامت کے دن رب
کے آگے اس کی جوابدہی تو دینے پڑیگی لیکن اس کا وبال بھی ہماری کئی نسلوں کو
بھگتنا پڑے گا۔ معاشرے اور سماج میں اُٹھنے والی ضرورتوں کواگربر وقت پورا نہ کیا
جائے تو مستقبل قریب میں فساداور انتشار کے لئے تیار رہیں، کیونکہ یہی قانون فطرت
ہے۔اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔
Comments
Post a Comment