ٹمل ناڈو اسمبلی انتخابات، ہمارا ہر ووٹ ہمارا مستقبل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ


جرعات

متحد رہنے کی برکات سے ہم مسلمان جتنے واقف ہیں شاید ہی دوسرا کوئی ہو۔ چودہ سو سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب امت نے متحد ہوکر کسی بات کی ٹھانی ہے وہ حاصل کر کے رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قرون اولہ کے دور کے مسلمانوں میں فکری اختلافات نہیں تھے۔ لیکن جب بھی امہ کے مشترکہ مفاد پر کوئی چوٹ پڑی سب اپنے اختلافات بھلا کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جم گئے اور باطل طاقتوں کو منہ توڑ جواب دے کر انہیں پسپا کر دیا۔ تاریخ سے اس پرکئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ افسوس! اتنا سب کچھ جاننے کے باوجود آج مسلمانوں کی جو حالت ہے اُ س پر خون کے آنسو رونے کو جی کرتا ہے۔ فکری اختلافات تمام حد پار کرکے اب مستقل ایک مذہب کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ دین اور شریعت کی صحیح تفہیم کا دعویٰ کرتے ہوئے شہر کے ہر نکڑ پر کئی کئی مکتبہ ء فکر چوپال جمائے بیٹھے ہیں۔ ہر کوئی صرف اپنے کو حق سمجھتا ہے اور دوسروں کو گمراہ اور بے دین قرار دے کر ان کی ہجو اُڑاتا پھرتا ہے۔ سماجی معاملات میں جتنے بھی ادارے اور جماعتیں ہیں ان میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ایک طرف ہوڑ لگی ہوئی ہے تو دوسری طرف خود ان کے اندر بھی گروہ بندی اتنی ہے کہ شیطان بھی شرماجائے۔ سیاسی محاذ پر تو پوچھنا ہی کیا؟ جہاں دو آدمی جمع ہوئے ایک پارٹی بن گئی، جھنڈا ہاتھ میں اُٹھائے زندہ بادمردہ باد کے نعروں کے ساتھ پھر رات دن ایک بے ھنگم اور انتشار لانے والاشور، اور پھر ان دو میں آپس میں کسی بات پرنہیں بنی، دوسرے نے ایک نئی پارٹی شروع کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے جوتیوں میں دال بٹنی شروع ہوجاتی ہے۔جتنی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں میں ان دنوں وجود میں آچکی ہی اتنی شاید ہی دوسرے طبقے میں ہو۔ لیڈروں کی تو گویا بھر مار ہے۔ ہر کوئی صرف اپنے آپ کو مسلمانوں کا نجات دہندہ قرار دے کر اتحاد کے نام پر دوسروں کو اپنے پیچھے کی آنے کی تاکید کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن کوئی بھی کسی کے پیچھے جانے کو تیار نہیں۔

ریاست ٹمل ناڈو میں ا سمبلی انتخابات دستک دے چکی ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف اپنے اپنے جوڑ توڑ میں لگ چکے ہیں۔چھوٹی چھوٹی،ذات اور برادری کے نام پر وجود میں آئی پارٹیاں اپنی حیثیت سے زیادہ کی مانگ لئے اُڑنے لگے ہیں،حکومت کی جانب سے بھی اور حزب اختلاف کی جانب سے بھی ان کی ناز برداریاں شروع ہوچکی ہیں۔ اگرکہیں زندہ ہونے کی آہٹ نظر نہیں آرہی ہے تو وہ ہمارا طبقہ ہے۔ ایک دور تھا جب الیکشن سے قبل، ہم سے بھی، خود ہمارے دروازوں پر پہنچ کرالیکشن میں ساجھے داری کے لئے درخواست کی جاتی تھی۔ اُس وقت ہم ایک جھنڈے اور ایک لیڈر کے تلے متحد تھے، لیکن اب ہماری نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہوئے اتنی ساری پارٹیاں میدان میں ہیں کہ نہ حکومت اور نہ حزب اختلاف، ان میں سے کسی کے تعلق سے سنجیدہ ہوکر ان کے دروازوں پر پہنچ کر خود سے ساجھے داری کی بات رکھ رہی ہے۔ بلکہ یہ پارٹیاں خود سے کاسہ ء گدائی لئے ایک ایک دو دو سیٹوں کے عوض مسلمانوں کا سودا کرنے، کبھی حکومت کے دروازوں پر تو کبھی حزب اختلاف کے دروازوں پر قطار لگائے کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ان حالات کا فائدہ بڑی سیاسی پارٹیاں اس طرح اُٹھا رہی ہیں کہ ایک یا دو سیٹ جی حضوری کرنے والی پارٹیوں کی جھولی میں ڈال کر اقلیت نواز ہونے کا ڈھونگ رچا کر پورے طبقے کو بے قوف بنا کر اکٹھاووٹ ہتھیانے کی کامیاب کوشش کرتی ہیں۔ یہ سب جانتے ہوئے سمجھتے ہوئے بھی ہم لوگ ان بڑی سیاسی پارٹیوں کے پیچھے جانے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ غلطی ان کی نہیں ہماری ہے کہ ہم اب تک کئی ٹھوکریں کھانے کے باوجود ایک اکھٹی قوت کے روپ میں اپنے آ پ کو پیش نہیں کرسکے، ایک مضبوط ووٹ بینک ہوتے ہوئے بھی ہم اپنی اس طاقت کا فائدہ، اپنوں کی آپس کی اوربے کار کی سرپھٹولوں کی وجہ سے نہیں اُٹھا سکے۔ کیاہی اچھا ہوتا ہماری تمام سیاسی پارٹیاں کم از کم الیکشن کے وقت،متحد ہوکر ایک محاذ کی صورت میں ان بڑی سیاسی پارٹیوں سے ساجھے داری کی بات کرتے۔ اگر ایسا ہوتو ممکن ہے ہم اپنی حیثیت اورآبادی کے تناسب سے الیکشن لڑنے کے لئے سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

ملک میں جو حالات ہیں اس کے پس منظر میں ٹمل ناڈو اسمبلی انتخابات کی بڑی اہمیت ہے۔ فاشسٹ طاقتیں کسی بھی طرح امن کے اس جنت میں سانپ بن کر داخل ہونا چاہتی ہیں۔اس کے لئے انہیں، خود یہاں کے نام نہاد پہریدار خفیہ سرنگیں اور راہداریاں فراہم کررہے ہیں۔ ایسے میں ایک امن پسند شہری ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔ اگر ہم نے ابھی سے بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے، اپنے صفوں میں جو کجی پیدا ہوگئی ہے انہیں دور کرکے، گلی گلی محلے محلے ککر متوں کی طرح اُگے نام نہاد لیڈروں پر دباؤ بنا کر انہیں جماعت کا پابند بنا کے،اپنے آپ کو ایک مضبوط سیاسی قوت کا روپ دے کر آگے نہیں آئیں گے، مستقبل ہمارے لئے مشکلیں اور تاریکیاں ہی لائے گا۔

یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ وقت صرف انہیں کا ساتھ دیتا ہے جو اس کی نبض سمجھتے ہیں اور جو اُس سے ٹکراتے نہیں بلکہ اُ س کو اپنے مفادات کے لئے مطلب کے مطابق ڈھالنے کاہنر جانتے ہیں۔حالات بدل رہے ہیں، دوستوں اور دشمنوں میں تمیز مشکل ہوگئی ہے۔ سوال حقوق کی حفاظت سے سرکتے سرکتے وجود کی بقا  تک آگیا ہے۔ ہمارا ہر ووٹ  ہمارا مستقبل ہے۔ ہماری ذراسی نادانی ہمیں صدیوں رلاسکتی ہے۔ (یہ اور بات ہے کہ ہم ماضی کی نادانیوں کی وجہ سے آج بھی کئی سنگین مسائل کا شکار ہیں)۔ اس لئے جو بھی فیصلہ کرنا ہے سوچ سمجھ کر ابھی سے ایک لائحہ عمل بنا کر کریں۔ سیاسی اتحاد کی مسلسل کوشش کرتے ہوئے،جذباتی نعروں اور انا نیت کے بھول بھلیوں میں الجھے بغیر، ہمیں دشمن کی ہر چال کو مومنانہ بصیرت سے مات دینا ہے۔ آپ کی بقا اس میں نہیں کہ آپ نے اپنی نمائندگی کے لئے کتنوں کو حکومت کے ایوانوں تک پہنچایا بلکہ اس میں ہے کہ کتنے زہر یلے سانپوں کوآپ نے امن کے اس جنت میں داخل ہونے سے روکا۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ............ اسانغنی مشتاق رفیقی