سوال اور تحقیق و جستجو سے گریز کے نتائج ............................... اسانغنی مشتاق رفیقیؔ

 

جرعات 

ایک بالغ،صحت مند اور مضبوط معاشرے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں ہر ایک کو سوال کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔کیونکہ سوال سے ہی تحقیق اور جستجو کے دروازے کھلتے ہیں، غور و فکر کے نئے جہت آشکار ہوتے ہیں، سوچ کو جلا ملتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں معاشرہ تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہوتاہے۔ جس معاشرے میں سوال پر پابندی ہو وہ معاشرہ جمود کا شکار ہو کر تنزل کی راہ پر لگ جاتا ہے۔

مسلمانوں کے دور اول میں جو معاشرہ تشکیل پایا تھا اس کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہاں سوال کرنے کی آزادی تھی۔ سائل کا ہر سوال چاہے اس سے کفر شرک کو تقویت ملتی ہو یا بغاوت کی بو آتی ہو،سکون و اطمینان سے سنا جاتا تھا اور ارباب حل وعقد اس کا تسلی بخش جواب دینے کو اپنا فریضہ سمجھتے تھے۔ جہاں جواب دینے میں دقت ہوتی وہاں مصحف اعظم کے پیش کردہ اصول و ضوابط پر غور و فکر اور تحقیق کے ذریعے نئے زاویئے کھوجے جاتے اور ایسے بیانیے تشکیل دئے جاتے کہ سائل اطمینان قلب پاجاتا۔لیکن ان بیانیوں کو بھی حتمی نہیں سمجھا جاتا بلکہ ان پر زمانے کے بدلتے روش کے ساتھ تبدیلی کو ناگزیر سمجھا جاتا۔اس دور کے مسلمان قرآن و سنت کے ذریعے پیش کئے گئے اصول و ضوابط کو اہمیت دیتے تھے، ان اصول و ضوابط کے ذیل میں تشکیل پائے بیانیوں کو نہیں۔ ان کے یہاں ہر نئی چیز کا اگر وہ انسانی معاشرے  کے لئے نفع پخش ہے تو استقبال کیا جاتا تھا، اس کا فوری انکار کر کے اس کو فتنہ نہیں کہا جاتا تھا اورپھر ایک عرصے بعد انکار سے رجوع کر کے اپنا مذاق نہیں بنایا جاتا تھا۔جمود ان کے یہاں صرف لغت میں پایا جاتا تھا، عمل میں وہ غور و فکر اور تحقیق کے قائل تھے۔ تاریخ گواہ ہے ان کامعاشرہ انسانی تاریخ کا سب سے بہترین معاشرہ قرار پایااور آج بھی یہ سندصرف انہیں کے ساتھ منسلک ہے۔

جوں جوں زمانہ گذرتا گیا ہم مسلمانوں کے نسلوں میں ایسے لوگ پیدا ہونے لگے جو فکری بانجھ پن کا شکار تھے۔ انہوں نے غور و فکر اور تحقیق کے دروازے عمداً بن کر کے جو بیانیے تشکیل پا چکے تھے اُنہیں کو حرف آخر قرار دے کر ان کی تقلید کا طوق امت کے گلے میں ڈال دیا۔ سوال کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ سائل کو کافر،مشرک اور گمراہ کہہ کر اس کو ذلیل و رسوا کرنے کے اصول وضع کئے گئے۔ مسند امامت پر مفکرین اور محقیقین کی جگہ مقلدین کو بٹھایا جانے لگا۔ تقلیدی سوچ کو تقدس کا جامہ پہنا کرمنبر و محراب پر اس طرح آویزاں کردیا گیا کہ سماج اسی کو اصل سمجھ کر جمود کا شکار ہوتا چلا گیا۔ پھر اس کے نتیجے میں ہر نئی چیز مشکوک قرار پائی۔ماضی کے تمام بیانیے،چاہے بدلتے زمانے میں ان کی اہمیت اور ضرورت صفر ہی کیوں نہ ہوگئی ہو مقدس ٹہرے اور ان کی حفاظت فرض عین، لیکن زمانے کے تغیرات کو نظر میں رکھ کر قرآن و سنت کے اصول و ضوابط کی روشنی میں غور و فکر اور تحقیق سے تشکیل دئے جانے والے بیانیے ناقابلِ قبول، اس کے مفکرین اور محقیقین، زندیق و گمراہ،اس کی تائید کرنے والے جماعت میں توڑ پیدا کرنے والے سمجھے جانے لگے۔ بات یہی تک نہیں رکی، صرف اپنے بیانیوں کو حق سمجھنے کی ضد اوراس پر شدت کی وجہ سے اختلافات کا ایک ایسا کار زار برپا ہوا جس میں الجھ کر امت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اوریہ جنگ ہنوز جاری ہے، نہ اختلافات کی شدت میں کمی آئی ہے نہ ٹکڑے ٹکڑے ہوئی امت کی مسیحائی اور رفوگری کی کوئی بھی کوشش آج تک کامیاب ہوسکی ہے۔ 

آج اگر ہمارا معاشرہ بدترین تنزل اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے، ہر محاذ پر ناکامی، در در کی ٹھوکریں اور کاسہء گدائی ہمارا مقدر بنتی جا رہی ہیں، ہمارا وجود نہ دوستوں کے لئے نفع بخش ہے نہ دشمنوں کے لئے قابل اعتناء، تو اس کی وجہ یہی تقلیدی سوچ، سوال سے گریز او رصرف اپنے بیانیوں کو حق سمجھنے کی ضد ہے۔ گزشتہ ستر سالوں سے غور و فکر اور تحقیق کے جتنے بھی دروازے ہم پر وا کرنے کی کوشش کی گئی ہم نے ان کو شک کی نظروں سے دیکھا، مفکرین اور محقیقین کی ہجو اُڑانے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا،انہیں گمراہ قرار دے کر امت کے لئے ان کے بیانیے کو ناقابل قبول بنا دیا۔ اور آج جب پانی سر تک آچکا ہے ہمیں احساس ہونے لگا ہے کہ ہم نے کتنی بڑی بھول کی ہے۔ کاش اسی وقت جب ایک دانا نے کہا تھا کہ اگر آنے والے زمانے میں عزت چاہتے ہو،سر بلندی چاہتے ہو اپنے وقار کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو اپنی نسلوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کرو، اور اس کے لئے ایک لائحہ عمل بھی پیش کیا،ایک مثالی مدرسہ کی بنا ڈالی۔اگر امت اسی وقت اس دانا کی بات مان لیتی اس کے بانگ درا پر لبیک کہتی اور اس کی تحریک کو عوامی تحریک بنا کر محلہ محلہ بستی بستی اسکول کھول کر تعلیم عام کرتی تو آج ہماری حیثیت ہی اور ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہماری مقلد سوچ نے ہماری آنکھوں پر تعصب کی پٹی ڈال دی، ہم نے سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی اس دانا کی بات کو دھتکار دیا، نہ صرف دھتکار ابلکہ اس کی ہجو گوئی کرنے میں کوئی کثر نہ چھوڑی۔ کیونکہ اس دانا نے سوال کھڑے کئے، غور و فکر کی دعوت دی اور تحقیق کے لئے اُکسایا۔آج برسوں بعد زمانے کی ٹھوکروں نے جب ہمیں مجبور کردیا ہے کہ ہم اس دانا کی بات کوقبول کریں تو ہم یہ بیانیہ جاری کرنے لگے ہیں کہ چاہے پیٹ پر پتھر بھی باندھنا پڑے باندھ لیں لیکن عصری تعلیم ضرور حاصل کریں۔کج کلاہی کے زعم اور تقلیدی سوچ کے دل پر پتھر رکھ کر بیانیہ تو جاری کردیا لیکن اس کے لئے لائحہ عمل ندارد۔

یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں جب تک ہمارے پاس تعلیم کے جو دائرے پہلے سے موجود ہیں انہیں میں اصلاحات کر کے کوئی ایسی راہ نہیں نکالیں گے جس سے امت کا بڑا طبقہ فیض یاب ہو اورانہیں تعلیم کے اعلیٰ مدارج تک پہنچنے میں آسانی ہو اور ساتھ ہی پوری شدت کے ساتھ ایسا بیانیہ جاری نہیں کریں گے جس سے موجودہ دور میں عصری تعلیم کی واجبیت واضح ہوتی ہو تب تک امت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی اور نہ امت میں پیدا ہوئی معاشی، اخلاقی، تعلیمی اور فکری زوال کو روکا جاسکتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ............ اسانغنی مشتاق رفیقی