اقتدار کے دائرے، اسلام اور ہمارا طرز عمل ......................... اسانغنی مشتاق رفیقیؔ،
جرعات
اقتدار اور وہ بھی اپنے ہی جسیے
انسانوں پر،یہ ازل سے انسان کا سب سے بڑا مدعا رہا ہے۔ اس کے حصول کے لئے وہ کچھ
بھی کر نے پر آمادہ رہتا ہے۔ نہ لہو کے رشتے اس کے آڑ آتے ہیں نہ دوستی نہ مذہب و
ایمان نہ رنگ و نسل۔ اقتدار کی ہوس ایسی ہوتی ہے کہ انسان اندھا ہوجاتا ہے اور ہر
وہ کر گذرتا ہے جس کے لئے دوسرے حالات میں شاید ہی وہ آمادہ ہو۔ اقتدار کے بہت سے
دائرے ہوتے ہیں، دائرہ جتنا وسیع ہوتا جاتا ہے انسان اپنی انسانیت اتنا ہی ترک
کرنے پر تیار ہوتا جاتا ہے۔ اقتدار کا نشہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ یہ جس کے سر چڑھ
جائے اس کے ہاتھوں تباہی کا وہ طوفان کھڑا کرتا ہے کہ انسانیت کانپ اٹھے۔
اقتدار کی پہلا پاٹھ گھر سے شروع ہوتا
ہے۔ جہاں انسان اپنے افراد خانہ پر حاکم بننے کی مشق کرتا ہے۔ کبھی جذبات کا سہارا
لے کر کبھی مذہب کی دہائی دے کر کبھی خاندان اور سماج کی بات کر کے وہ اپنے ماتحت
افراد خانہ پر اپنی مرضی ٹھونس کر خوش ہوتا ہے۔ اس کے بعد کا دائرہ،کاروبار، قبیلہ،
ذات، گاؤں، زبان، طرز بود باش، ملک اور مذہب وغیرہ ہوتے ہیں۔ ہر دائرے کے کچھ خود
ساختہ اصول ہوتے ہیں جن کے سہارے اقتدار پہ قابض ا فرد اس دائرے کے تحت آنے والے
افراد کا اس خوبی سے اپنے مفادات کے لئے استحصال کرتے ہیں کہ کسی کو کبھی یہ نہیں
لگتا کہ وہ در حقیقت کسی کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر ناچ رہے ہیں اور ان کے افکار و
اعمال میں انکا کوئی دخل نہیں ہے۔
مذہبی اقتدار کے دائرے بہت مؤثر
اورپائدار ہوتے ہیں۔ اس کے تحت حاصل ہونے والے مراعات اتنے جاذب ہوتے ہیں کہ ہر
کوئی اس کی تمنا کر تا رہتا ہے۔ ایک بار اگر کوئی ان دائروں میں صاحب اثر ہوجائے
تو اس کی نسلیں اس کے نام سے فیض پاتی رہتی ہیں۔ سماجی اداروں میں اقتدار کا بھی ایک
الگ ہی مقام ہوتا ہے۔ ان دائروں میں شہرت کے ساتھ ساتھ وسائل کے ایسے چور دروازے
بھی ملتے ہیں جہاں سے اقتدار پر پہنچا ہوا کہیں سے کہیں پہنچ سکتا ہے۔ سیاسی
اقتدار کا تو کہنا ہی کیا۔ یہ جس کو حاصل ہوجائے اس کے تو وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔اقتدار
کے ان تمام دائروں تک پہنچنے کے لئے لوگ اکثر ٹیڑھے راستے کا ہی استعمال کرتے ہیں
کیونکہ سیدھے راستوں سے ان تک پہنچا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ پچھلے زمانے میں
ہوسکتا ہے لوگ خدمت کے جذبے کے تحت اخلاص کے ساتھ اقتدار کی جستجو کرتے رہے ہوں
اور اقتدار پاجانے کے بعد اپنے مشن سے انصاف کئے ہوں، لیکن موجودہ دور میں ایسی
کوئی مثال ملنی مشکل ہے۔
آج کے دورمیں اقتدار کا حصول ہر اعتبار
سے مکمل استحصال کے لئے کیا جاتا ہے۔ مذہبی رہنمائی کے دعویدار کس خوبی سے لوگوں میں
تفرقہ پیدا کرکے اپنے اقتدار کو مضبوط کر تے ہیں یہ ایک کڑوا سچ ہے۔ عوام کو ٹکڑوں
میں تقسیم کرنا پھر اس تقسیم میں ایک اور تقسیم کرنا ان کامحبوب ترین مشغلہ ہے۔ ہر
قاسم اپنے آپ کو وقت کا مجدد، ہادی، مسیحا، کلکی اوتاراور نہ جانے کیا کیا گردانتا
ہے۔ پھر بھی عوام کی اکثریت انہیں سر آنکھوں پر رکھتی ہے۔ بخوشی اپنے آپ کو ان کی
غلامی میں دے کر ان کے جنبشِ ابرو پر اپنا تن من دھن نچھاور کردینے کو اپنا نجات
تصور کرتی ہے۔ جذبات اور عقیدت کا استحصال جس خوبی سے اس دائرے میں ہوتا ہے وہ کسی
اوردائرے میں ملنا مشکل ہے۔
سماجی اداروں میں اقتدار کا حاصل
ہوجانا بھی آجکل ایک بڑی کامیابی ہے۔ کیونکہ اس کے دائرے بہت نفع بخش ہوتے ہیں۔بھلے
سے ان دائروں میں اقتدار کو پہنچا ہوا طبقہ راست کرپشن میں مبتلا نہ ہوتا ہو لیکن
اس کے ذیل میں جو شہرت اور پہچان حاصل ہوتی ہے اس سے فائدہ ااُٹھا کر بھی اپنی
سماجی معاشی اور سیاسی حیثیت کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔
ٓآج کے دور کا سب سے بڑا اقتدار سیاسی اقتدار
ہے۔ اس اقتدار کے حصول میں لوگ کس حد تک جاسکتے ہیں اس کی مثال اگر دیکھنی ہو وطن
عزیز میں موجودہ حکومت کی تاریخ پڑھ لیں۔ کس عیاری سے صرف دو ممبرِ پارلیمنٹ والی
پارٹی آج مکمل اکثریت کے ساتھ ملک کی سیاہ وسفید کی مالک بنی بیٹھی ہے۔ مذہب، ذات
پات، زبان کے حوالے سے بد ترین عصبیت کو ہوا دے کر، سماج میں فتنہ و فساد برپا کر
کے، مظلوم انسانوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر اقتدار کی کرسیوں پر پہنچنے میں کامیاب
ہونے والی شاید یہ موجودہ دور کی واحد سیاسی پارٹی ہوگی جو یقین تو فاشزم پر رکھتی
ہے لیکن دعویٰ جمہوری ہونے کا کرتی ہے۔ اس کی اس کامیابی کے پیچھے اگر دیکھا جائے
تو سب سے بڑا ہاتھ ان عیار سرمایہ داروں کا ہے جو اپنے مفادات کے لئے ملک میں
انارکی لانا چاہتے ہیں تاکہ عوام اپنے مسائل میں اس شدت سے الجھی رہے کہ اس کے کسی
بھی فعل پر چاہے وہ ملک کے مفادات سے کتنا ہی ٹکراتی کیوں نہ ہو، کوئی سوال نہ کرے۔
اسلام ایک ایسا واحد دین ہے جو اقتدار
تک پہنچنے کے لئے کسی بھی قسم کی غیر انسانی، غیر اخلاقی طریقے کو بد ترین جرم تسلیم
کرتا ہے۔ اقتدار اسلام کے نزدیک خدمت کا ایک موقع ہے جو وہ ایسے انسانوں کو دینا
چاہتا ہے جو انسانیت کا درد رکھتے ہوں اور اس کی فلاح و بہبودی کے لئے کام کرنا
چاہتے ہوں۔اقتدار پر قابض ہونے کے بعد اگر کوئی اپنی حیثیت کا غلط فائدہ اٹھاتا ہے
تو اس کا سختی سے استحساب کرتا ہے اور ہمیشہ
کے لئے ایسے عہدوں کے لئے اُسے ناقابل اعتبار ٹہراتا ہے۔ خلفائے راشدین کا اقتدار،
ان کے دور میں ان کے ماتحتین کا طرز عمل، اس پر ان خلفائے راشدین کی گرفت اور خود
خلفائے راشدین پر بر سر منبر عامی حضرات کے ذریعے نکتہ چینی اور سوال، اس پر ان کی
صفائی، یہ سب اسلام میں اقتدار کے حوالے سے مضبوط روایات ہیں۔
ہم مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے
کہ ہم نے اسلام کے ان روایات کانہ خود اپنے دائروں میں تحفظ کیا اور نہ دوسروں تک
اس کو پہنچایا۔ اگر ہم اپنے اداروں میں اپنے میسر دائروں میں اقتدار کے ایسے نمونے
پیش کرتے جو آج کل مفقود وہوچکے ہیں یا ہوتے جارہے ہیں تو برداران وطن کے دلوں کو
مسخر کرنے کی اس سے بڑی کیا بات ہوسکتی ہے۔ لیکن ہم ایسا نہیں کرتے، اقتدار کی دوڑ
میں ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جس کی اسلام سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ جھوٹ، کردار
کشی، غیبت، الزام تراشی کے بغیر آج کل ہمارے کسی بھی ادارے میں اقتدار کا حاصل ہونا
ناممکن ہے۔ اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، ذرا سوچیں!!اقتدارحاصل ہوجانے کے
بعد جو اصل میں ایک امانت ہے،ہم کس حد تک اس کی حفاظت کرتے ہیں یہ خود ہم اپنے گریبانو
ں میں جھانک کر دیکھ لیں۔ اپنی انا اپنی شہرت اور اپنے مفادات کا حصول اول اور
دائروں کے مفادات دوسرے درجے پر، خدمات کے لئے ماتحتین کا انتخاب ہو تو اہلیت کے
بجائے ہاں میں ہاں ملانے کی صلاحیت معیار بن جاتی ہے۔ خود کو اس کا علم ہوتے ہوئے
بھی کہ علمی یا جسمانی یا اخلاقی اعتبار سے جس عہدے کی جستجو ہے یا جس پر قابض ہوں
اہل نہیں ہوں، اس کرسی سے چمٹے رہنا اور تنقید یا سوال کرنے والوں کی تحقیر کرنا
اور اپنے اندھ بھگتوں کے ذریعے انہیں خاموش کرانا، کونسا ایسا عمل ہے جس میں ہم
ملوث نہیں ہیں۔ اگرہم چاہتے کہ بدلاؤ آئے، وطن عزیز میں اقتدار صالح اور امن پسند
لوگوں کے پاس پہنچے تو اس کے لئے ہمیں اپنے اپنے دائروں میں تبدیلی لانی ہوگی۔اقتدار
کا اسلامی نمونہ بردارن وطن کے آگے پیش کرنا ہوگا اور وہ بھی ہر قسم کے سیاسی تعصب
سے بالا تر ہوکر۔ تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں جب بھی کوئی بڑی تبدیلی آئی چاہے
وہ دور اول میں ملک کو وسیع اور خوشحال (سونے کی چڑیا) بنانے میں ہویاجنگ آزادی میں
ہو یا ملک کو جمہوری سانچے میں ڈھالنے میں ہو ہمارا کردار ہمیشہ صف اول کا،
مدبرانہ اور مثبت رہا ہے۔
Comments
Post a Comment