تلخ وترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق رفیقی

  

٭غلام میڈیا کے رہتے کوئی ملک آزاد نہیں ہوتا ہے۔ گودی میڈیا سے آزادی سے ہی نئی آزادی آئے گی۔۔۔ صحافی رویش کمار

اس میں کوئی شک نہیں، لیکن جو جدیدوسائلوں سے لیس ہے جس کو عیار سیاستدانوں اور مطلب پرست سرمایہ داروں کی سرپرستی اور حمایت حاصل ہے اس کے گرفت سے نکلنا جب کہ عوام کی اکثریت اس کے دوغلے پن سے واقف ہی نہیں، اتنا آسان نہیں۔

٭ بجٹ دوہزار اکیس، نجکاری پر زور، کسانوں کو رجھانے کی کوشش، مگر عام آدمی کے لئے کچھ نہیں، خواص کے لئے سب کچھ۔۔۔ ایک عنوان

 حکومت کی جانب سے عام آدمی کے لئے ہمیشہ خسارہ ہی ہے لیکن اس کا احساس اسے کم ہی ہوتا ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو ہمیشہ خواص کے مفادات کی ہی نگران ہوتی ہے۔پھر بھی عام آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ حکومت چونکہ اُس کی وجہ سے قائم ہے اس لئے اُس کے ہر فیصلے اسی کے مفاد میں ہیں۔  بیچارا عام آدمی!

٭یوم جمہوریہ کے موقع پر مرکز کے تین نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی مانگ پر کسانوں کی جانب سے نکالے گئے پریڈ کے دوران تشدد، کیا کسانوں نے غلطی کی ہے؟۔۔۔ ایک سوال

کسانوں کے سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ انہوں نے ایک مقبول حکومت کے خلاف آواز بلند کر نے کی جسارت کی ہے۔ بھلے سے حکومت کی نئے قوانین کی وجہ سے انہیں فرق پڑتا ہے، انہیں لگتا ہو کہ حکومت ان کے پیٹ پر پیر رکھ کر اپنے سرمایہ دار دوستوں کی پیٹ بھر رہی ہے لیکن جس حکومت نے مسلمانوں کو ان کی اوقات بتادی، ہندو راشٹر قائم کرنے کی راہ ہموار کی، اس حکومت کے خلاف احتجاج ایک ناقابل معافی جرم ہے۔

٭پڑوسی ملک کے اسّی سالہ سابق وزیر نے اکیس سالہ دوشیزہ سے شادی رچائی، تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل۔۔۔ ایک دلچسپ خبر

عشق اندھا ہوتا ہے اس میں عمر نہیں دیکھی جاتی ایسا سنتے آئے تھے، اب دیکھ بھی لیا۔ ویسے سابق وزیر اگر ان کے فیملی حکیم اور ڈاکٹر کا نام تشہیر کردیں تو بہت ساروں کو فائدہ ہوجائے گا۔

٭بجٹ دوہزار اکیس کے خطاب سے اقلیتی طبقہ غائب، مرکزی حکومت نے کیا مکمل نظر انداز۔۔۔ ایک خبر

جس طبقہ سے اُسے رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی فائدہ نہیں، جس کے وجود کو وہ ایک بوجھ سمجھتی ہے، جس کی مخالفت کر کے اور جس پر ظلم وستم توڑ کر وہ اقتدار تک پہنچی ہے اس حکومت سے یہ امید رکھنا کہ وہ بجٹ وغیرہ میں اسے یاد رکھے گی ایک بہت بڑی حماقت ہے۔ اقلیتی طبقوں کو چاہئے کہ وہ اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنائیں کہ اُسے آگے بڑھنے کے لئے کسی  بیساکھی کی ضرورت نہ پڑے۔

٭مدارس اسلامیہ میں سائنس کیوں نہیں پڑھائی جاتی؟۔۔۔ ایک سوال

اس لئے کہ سائنس غور و فکر کی دعوت دیتی ہے، خود سے سوچنے کے لئے کہتی ہے، سوالات کھڑی کر کے تحقیق کی طرف بلاتی ہے۔ چونکہ یہ سب مدارس میں شجر ممنوعہ ہیں ایسے میں وہاں سائنس کی تعلیم کی  بات ہی بیکار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ............ اسانغنی مشتاق رفیقی