کیا مسلماںوں میں اتحاد و اتفاق دیوانے کا خواب جیسی کوئی بات ہے؟ .......................... اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
جرعات
چودہ سو سال گذر گئے، زمانے نے کئی
کروٹیں لے لیں، لیکن تاریخ کے صفحوں پر لگے کچھ داغ آج بھی ویسے ہی تازہ ہیں جیسے یہ
کل ہی کی بات رہی ہو، خلیفہ سوم کے خلاف بغاوت ہوئی، باغیوں نے خلیفہ وقت کے گھر
کا گھیرا کرکے آخر کار انہیں شہید کر ڈالا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن مسلمانوں میں ایک
دوسرے کے خلاف بغاوت اوررسہ کشی عام سی بات ہے۔ خلیفہ چہارم کے خلاف ان کو شہید
کئے جانے تک بغاوت اور نافرمانی، پھر نواسہ رسولؐ
کا ساتھ جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا ایک ایسا المناک باب ہے جس سے بڑا المیہ
شاید ہی روئے زمین پر کوئی رونما ہوا ہو۔ خلافت پر ملوکیت کی جیت سے جو فضا تیار
ہوئی اس کا اثر عوام کے ذہنوں پر ایسا پڑا کہ صحیح اور غلط کی تمیز ہی مٹ گئی۔
دشمن کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ جانے والے آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف
گردنیں کاٹنے لگے۔عہدے اور کرسی کے لئے کچھ بھی کر جانا نہ صرف آسان ہوگیا بلکہ اس
کے لئے سند بھی مہیا کرالی گئی۔ یوں امت میں تفریق کا جو بیج بویا گیا وہ وقت کے
ساتھ ساتھ تناور درخت بنتا گیا۔ ایک اللہ، ایک کلمہ، ایک رسول، ایک کتاب رکھنے کے
باوجود اگر دنیا میں سب سے زیادہ منتشر اور ٹکڑوں میں بٹی ہوئی کوئی امت ہے تو وہ
امت مسلمہ ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس کا مسلمانوں کو
احساس نہیں ہے۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر آج وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں
تو اس کی بنیادی وجہ ان کا یہ بکھراؤ ہی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ آپس میں ایک دوسرے کے
ساتھ مفاہمت کے لئے تیار نہیں۔ شاید ہی ایسا کوئی دن گذرتا ہو جب کوئی عالم یا
دانشور انہیں اتحاد و اتفاق کی طرف دعوت دے کر اس کے فوائد نہ بتاتا ہو۔ کلمہ کی
بنیاد پر اللہ اور رسوال ؐ کا واسطہ دے کر
کتاب کے حوالے سے ایک ہونے کے لئے نہ کہتا ہو۔ پھر بھی ان کے کانوں میں جوں تک نہیں
رینگتی۔ صدیوں سے ایک دوسرے کے خلاف ہمیشہ آستین چڑھائے رکھنے کی روش میں ہزاروں
ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی کوئی بدلاؤ نہیں آیا ہے۔
موجودہ دور مسلمانوں کے لئے سب سے کٹھن
دور سمجھا جاتا ہے۔ جتنی ذلت و رسوائی اوردر در کی کاسۂ گدائی آج کے مسلمانوں کو
ملی ہے شاید ہی کسی دور میں ایسا ہوا ہو۔ ایک طرف مغربی تہذیب کی یلغار اور باطل
مذہب پرستوں کی ریشہ دوانیاں تو دوسری طرف منافقین،مرتدین اور ملحدین کے روز بروز
شدت اختیار کرتے حملے۔ شاید ہی کوئی ایسا دن گذرتا ہو جب کہیں سے خبر نہ آتی ہو کہ
آج مسلمانوں کے ساتھ یوں ہوا، انہیں اس طرح ستایا گیا، ان پر ایسے ایسے الزامات
لگا کر ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کے گھر دار اور کاروبار کو ایسے تباہ کیا
گیا،ان کے شہروں پر بمباری کر کے ان کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر یوں مجبور کردیا
گیا۔ اتنا سب دیکھنے، سننے اور سہنے کے باوجود جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ نہ امت میں
فرقہ بازی میں کوئی کمی آئی ہے اور نہ عہدے اور کرسی کے لئے ایک دوسرے کے خلاف
محاذ آرائی میں تو حیرت ہی نہیں تعجب بھی ہوتا ہے کہ آخر یہ امت کیا سُورِ اسرافیل
پر ہی سدھرے گی۔
خواب کو ویسے بھی عقلی دنیا میں کوئی
اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگر یہی خواب دیوانے کا ہو تو پھر اس پر کچھ کہنا ہی فضول ہے۔
مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق دیوانے کا خواب جیسی ہی کچھ بات ہے شاید۔زمانے سے فرقہ
فرقہ کھیلتی امت میں اب پارٹی پارٹی کھیلنے کا رجحان شدید ہوتا جارہا ہے۔ وطن عزیز
میں آج کل جمہوریت کے نام پر جو کچھ چل رہا ہے اس سے ہر کوئی اچھی طرح واقف ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا رویہ اور انہیں خوف اور ڈر میں ہمیشہ مبتلا رکھنے کی
مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ آزادی کے بعد ستر سالوں میں مسلمانوں کے خلاف جو ماحول نہ
بن سکا وہ گزشتہ چھ سالوں میں بنا لیا گیا ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی بات کو لے کر یا
خود سے کوئی بات کھڑی کر کے مسلمانوں کو حاشیئے میں لینے اور انہیں اکثریت کی نظر
میں ذلیل اور بد نام کرنے کے لئے میڈیا میں ایک فوج اُتر آتی ہے۔ ان حالات میں اچھی
طرح یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ آج ہماری سب سے بڑی ضرورت اتحاد و اتفاق ہے، اسمبلی یاپارلیمنٹ
کے ایک دو سیٹ کے خاطر خود آپس میں الجھنا کونسی دانشوری یا دور اندیشی ہے۔ آپ کی
اس طرح کی سیاست کا راست فائدہ فاشسٹ طاقتوں کو پہنچتا ہے اور وہ آسانی سے جیت کر
آپ کے سر پر سوار ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد آپ لاکھ چلالیں، واویلا کرلیں کہ فاشسٹ
طاقتوں کو تقویت پہنچانے میں آپ کا کوئی کردار نہیں ہے، کچھ نہیں ہونے والا۔ اگر
آپ میں تھوڑی بہت بھی عقل ہے، بصیرت ہے تو ایسا کوئی لائحہ عمل وضع کریں کہ آپ کی
وجہ سے غنیم کو کوئی فائدہ نہ پہنچے۔عہدے اور کرسی کی لالچ میں امت میں انتشار پھیلانا، پہلے ہی ٹکڑوں میں بٹی امت میں خود کو ہی اصل
بتا کر ایک اور ٹکڑے کی بنا رکھنا، جذباتی نعرے لگا کر وقتی فوائد حاصل کرنے کی
کوشش کرنا،جمہوریت کی دہائی دے کر ہر اس جگہ دخل دینا جہاں آپ کا کبھی کوئی کردار
نہیں رہا بس تھوڑی سی پہچان ہو گئی اور آپ اپنا جھنڈا لے کر وہاں پہنچ گئے،چاہے اس
کی وجہ سے کتنا ہی انتشار کیوں نہ پھیلے، اپنے بھائیوں کے ہار پر اپنی جیت کی بنیاد
رکھنا، اگر آپ کے نزدیک اسی کا نام اتحاد المسلمین ہے تو ایسے اتحاد سے اللہ کی
پناہ۔ یاد رکھیں ایسا اتحاد کبھی بھی مسلمانوں کے لئے کسی بھی نقطہء نظر سے فائدہ
مند نہیں ہوگابلکہ اس کی ذلت و رسوائی میں اور اضافے کا سبب بنے گا۔
Comments
Post a Comment