کرونا کا ٹانڈو ، کیا یہ کوئی خدائی قہر ہے یا ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ یا کچھ اور!!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق رفیقیؔ

 

 

جرعات

آہ و بکا، ماتم و گریہ کا ایک شور ہے جو ملک کی چاروں دشاؤں میں برپا ہے۔ موت کا ایسا ٹانڈو شاید ہی کسی کے وہم و گمان میں رہا ہوجو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ کہیں بوڑھے باپ کے کاندھوں پر جوان بیٹے کا جنازہ ہے تو کہیں بیٹیاں اپنی باپ کی ارتھی اُٹھائے شمشان گھاٹ پر لائن میں کھڑی ہیں تاکہ نمبر آنے پر اپنے باپ کو چتا کے حوالے کر سکیں۔ شوہر اپنی بیوی کی لاش سائیکل میں لادے اس کی انتم سنسکار کے لئے سر گرداں ہے تو کہیں کوئی بیٹا اپنے ماں باپ کی زندگی بچانے کے لئے آکسیجن کی تلاش میں گلی گلی مارا مارا پھر رہا ہے۔ یہ کیا قیامت برپا ہوگئی ہے کہ ہر قدم پر یاتو جنازے سے سامنا ہورہا ہے یا جلتی چتاؤں کی تپش سے۔ کیا یہ کوئی خدائی قہر ہے یا ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ یا کچھ اور!!! ہر آنکھ اشکبار ہے، ہر چہرے پر اداسی اور غم کی پرچھائیاں اتری ہوئی ہیں، کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے، ہائے یہ کیا ہورہا ہے، کیوں ہورہا ہے، آخرکب تک ایسا  ہوتا رہے گا۔ زندگی اور موت کی یہ آنکھ مچولی کب تک چلے گی۔ یتیموں اور بیواؤں کے شور ماتم پر موت کا یہ رقص کب تک جاری رہے گا۔ اور کتنے انسانوں کی قربانی چاہئے اس وبا کو؟

مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک وطن عزیز کا چپہ چپہ موذی وبا کی لپیٹ میں ہے۔ گزشتہ سال جب اس وبا کی پہلی لہر شروع ہوئی تھی تو یار لوگوں نے اس کا پورا ٹھیکرا ہمارے سر پھوڑ کر اس وبا کو ایک فرقہ وارنہ رنگ دینے کی کامیاب کوشش کی تھی ، گودی میڈیا نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرکے عوام میں ہماری شبیہ بگاڑنے میں کوئی کثر نہ چھوڑی تھی ۔ یہ اور بات ہے کہ امسال کی طرح گزشتہ سال وبا میں اتنی شدت پیدا نہیں ہوئی تھی (ورنہ خدا جانے کیا ہوجاتا) اوربعد میں عدالت نے بھی ہمیں ذمہ دار ماننے سے انکار کردیا تھا ۔ ارباب حکومت کا رویہ بڑا عجیب رہا پہلے تو وہ اس وبا کو تھالی اور گھنٹی بجا کر، دیا اور ٹارچ جلا کر بھگانے پر مصر رہے پھر سخت لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ۔ وبا کا زور جب  ایک حد تک ٹوٹ گیا تو عوام میں یہ بات چلا دی گئی کہ ہم نے ایک خطرناک وبا کو آسانی سے شکست دے دی ہے ، تبھی وبائی ماہرین نے انتباہ کیا کہ دوسری لہر آ سکتی ہے اور عوام میں ٹیکہ کاری مہم چلانے کا سجھاؤ دیا لیکن حکومت نے ان کی بات سنجیدگی سے نہیں لی، جنگی پیمانے پر تیار ہوئے  ویکسیسنس وشواگرو بننے کی چاہ میں دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ کردئے گئے ۔صوبائی الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی الیکشن جیتنے کی خواہش میں  حکومت کی توجہ اس طرف پلٹ گئی اور وبا کی دوسری لہر کے حوالے سے جو تیاریاں کرنی تھی وہ وقت پر نہ ہوسکیں ۔ یوں جب دھیرے دھیرے وبا کی شدت میں اضافہ ہونے لگا تو وسائل کی شدید کمی دیکھی گئی۔ آج یہ حال ہے کہ وبا سے متاثر ہونے والوں کو بنیادی طبی امداد دینے کے لئے نہ ماہر عملہ ہے نہ طبی سہولیات،آکسیجن سلینڈر کا حصول جوئے شیر لانے کے برابر ہوگیا ہے۔ کالا بازاری اتنی بڑھ گئی ہے کہ معمولی دوائیں بھی کئی گناہ اضافی قیمتوں کے ساتھ کمیاب ہوتی جارہی ہیں۔ یوں لگ رہا ہے حکومت کا سارا نظام ٹھپ ہوچکا ہے، کچھ بھی کہیں بھی وقت پر دستیاب نہیں ہو رہا ہے۔ خود کفیل ہونے کازعم کرنے والے دوسروں کے دئے ہوئے امداد بھی عوام میں صحیح طور پر تقسیم نہیں کر پا رہے ہیں۔ سچ پوچھیں تو وبا کے اس خطرناک طوفانی سمندر میں وطن عزیز کی کشتی خدا بھروسے چل رہی ہے۔

دوسری طرف عوام میں سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی وبا کے تعلق سے بیداری کا فقدان ہے۔ ماہرین کے سجھاؤ کو نظر انداز کر نا گویا جوانمردی سمجھا جانے لگا ہے۔ لاکھ سمجھانے کے باوجود عوامی اجتماعات میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔ ہمارے اپنوں کا، ہر معاملے میں باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہمارے میں کا ایک طبقہ آج بھی اس وبا کو ایک سازش ہی باور کرانے میں مصر ہے تو ایک طبقہ تقدیر کا جھنڈا اُٹھائے تمام احتیاطی تدابیر کو جوتے کے نوک پر رکھ رکھا ہے۔ ظاہری دینداری کو اصل سمجھنے والا ایک طبقہ بغیر ماسک اور سماجی فاصلوں کے نماز کا اہتمام کر کے ان کی تصاویر بھی سوشیل میڈیا پر وائرل کرارہا ہے، اس سے فرقہ پرست طاقتوں کو نہ صرف ہمارے اوپر کیچڑ اچھالنے کا موقع مل رہا ہے بلکہ وبا کو لے کر بھی آبیل مجھے مار جیسی صورتحال پیداہورہی ہے۔ جنازوں میں جانتے بوجھتے شریک ہونے کی ضد سے بھی ہمارے درمیان وبا میں اضافہ ہورہا ہے۔

خدارا! حالات کو سمجھیں۔ زندگی اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے، اس کی حفاظت کرنا ہمارا اولین فرض ہے۔ آپ کی ذرا سی غفلت نہ صرف آپ کے لئے خطرناک ہو سکتی ہے بلکہ آپ کے اپنوں کو بھی پریشان کر سکتی ہے۔ حکومت کیا کرتی ہے کیا نہیں کرتی ہے اس بحث میں الجھے بغیر آپ اپنے لئے اور اپنے اہل خانہ اور زیر دستوں کے لئے ایک لائحہ عمل وضع کیجئے، سماجی فاصلے کو یقینی بنائیے، ہر قسم کے اجتماعات میں شرکت سے احتراز کیجئے، گھروں میں جمے رہئے، جب تک وبا کا زور نہیں ٹوٹتا مصافحہ کی عادت سے باہر نکل آئیے۔ صرف شدید ضرورت پر گھر سے باہر نکلیئے اور ماسک ضرور استعمال کیجئے

 اس وبا سے محفوظ ہونے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ویکسین۔ ویکسین کے تعلق سے جتنے بھی منفی پروپگنڈے ہو رہے ہیں وہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانی پر مشتمل ہیں۔ اگر ویکسین دستیاب ہے تو فوراً لگوالیں۔ ویکسین آپ کی مدافعتی قوت میں اضافہ کر کے آپ کو اس وبا سے بچائے رکھی گی اور اگر آپ اس وبا کے لپیٹ میں آبھی گئے تو وہ اسے شدید ہونے نہیں دے گی۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس وبا سے ساری انسانیت کو نجات بخشے، وطن عزیز میں اس کی جو شدت دیکھی جارہی ہے اس سے سبھوں کی حفاظت فرمائے، جو لوگ اس وبا کی لپیٹ میں آکر اس کے پاس پہنچ چکے ہیں انہیں اپنے شایان شان جزا دے، جو اس وبا میں گرفتار ہیں انہیں جلد از جلد صحت کاملہ عطا کرے، اس وبا کی وجہ سے جو بچے یتیم ہوگئے جو عورتیں بیوہ ہوگئیں جن کے سروں سے کمانے والے اٹھ گئے ان کی زندگیوں میں آسانیاں فراہم ہونے کی سبیل پیدا کرے، جو لوگ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر خدمت میں لگے ہوئے ہیں ان کی زندگی اور خلوص میں برکت دے انہیں عافیت سے سرفراز کرے۔ آمین ثم آمین

Comments

Popular posts from this blog

اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ............ اسانغنی مشتاق رفیقی