امتحان کے سات سال اور ہمارا رویہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق رفیقیؔ

 

 

جرعات

اقتدار کی گلیاروں میں تبدیلی آئے سات سال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے۔گنگا میں بہت سارا آلودہ پانی بہہ چکا ہے اور اب آلودہ پانی کے ساتھ انسانی لاشیں بھی بہنے لگی ہیں۔ وقت کے مورخ کا قلم لگاتار پل پل کی حالات کو اپنے گرفت میں لے کر محفوظ کرنے میں مصروف ہے۔ وطن عزیزکے حالات چاہے اُن کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو تشویشناک ہی نہیں مایوس کن بھی ہیں۔ جمہوریت کے خیمے میں آہستگی کے ساتھ ڈکٹیٹر شپ کا اونٹ داخل ہوچکا ہے۔ وفاقی حکومت کے آڑ میں آمریت کو مضبوط کرنے کا عمل پوری شدت سے جاری ہے۔ جمہوریت کے چاروں ستون کی بنیادوں میں بنیاد پرستی کا زہر اتنا گھول دیا گیا ہے کہ اُن کے سائے سے بھی کڑواہٹ کی بو آنے لگی ہے۔ مواصلات کے تمام اقسام چاہے وہ برقی ہو یا کاغذی ہو یا سماجی ان سے وابستہ اکثریت حکومت کی غلطیوں کو اجاگر کر کے عوام کے آگے سچائی لانے کے بجائے ارباب اقتدار کی پردہ پوشی اور ان کی خوشامدی میں لگے ہوئے ہیں۔ دو ایک جگہ سے حکومت کے خلاف آواز اٹھتی بھی ہے تو حکومت کے بھگت یا تو ان کو پھیلنے نہیں دیتے یا ان کی اہمیت کم کرنے میں پورا زور لگا دیتے ہیں۔اور ویسے بھی نقار خانے میں طوطے کی آواز کتنے دور تک جائے گی۔

لگاتار اور کئی مہینوں تک مسلسل بین الاقوامی دوروں سے شروع ہوئی کہانی، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، دفعہ تین سو ستر کا خاتمہ، این آر سی اور سی اے اے، سے ہوتے ہوئے کرونا وائرس کے زیر اثر لاک ڈاؤن، مہاجر مزدوروں کی دردناک نقل مکانی،کسان بل اور ملک بھر میں اس پر شدید ہنگامہ،وباکے دوسرے لہر میں آکسیجن کی شدید کمی کی وجہ اموات میں بے پناہ اضافہ، شمشان میں لاشوں کی لمبی قطاریں، گنگا کے ساحل پر ہزاروں کی تدفین تک پہنچ چکی ہے۔ اس کہانی میں سب سے زیادہ متاثر اگر کوئی ہوا ہے تو وہ عام آدمی ہے۔ پل پل بدلتے ہوئے حالات نے عام آدمی کو اتنا کچل دیا ہے کہ اب وہ کسی بھی ظلم و زیادتی کے خلاف کراہنے سے بھی ڈرتا ہے۔ اُسے خوف ہے کہ اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہلکی سی چیخ بھی اُس کے حالات اور بد تر بناسکتی ہے۔ ضروریات زندگی کے اشیاء کی قیمتوں میں کئی گناہ اضافہ اور آمدنی میں مسلسل گراوٹ سے معاشرہ،معاشی انارکی کی طرف گامزن ہے۔ جہاں ایک طرف بڑے بڑے سرمایہ داروں کے سرمائے میں بے حساب اضافہ ہوا ہے وہیں سماج کا درمیانہ طبقہ تیزی سے غریب طبقہ کے فہرست میں ضم ہونے لگا ہے۔ایک بے ہنگم سا شور تو ہر طرف سے سنائی دیتا ہے لیکن احتجاج کی ٹھوس آواز سننے کو کانیں ترس رہی ہیں۔

اب یہ بات اظہر من الشمس ہوچکی ہے کہ ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواش“ کا نعرہ دے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والے موجودحکمرانوں کے نزدیک عوام کی حیثیت اقتدار تک پہنچنے کی ایک سیڑھی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ مذہب اور نام نہاد قوم پرستی کے نام پر جذباتی اُبال پیدا کر نا اور اس کے سہارے الیکشن جیتنا اب ان کا پہلا اور آخری کام ہے۔ دولت اور طاقت کے زعم میں مبتلا یہ لوگ اپنے مخصوص حواریوں کی تجوریاں بھرنے اور ایک زہر آلود نظریہ، وطن عزیز پر تھوپنے میں اس قدر مشغول ہیں کہ انہیں نہ عوام کی کراہیں سنائی دی رہی ہیں نہ قدرت کا تنگ ہوتا ہوا شکنجہ دکھائی دے رہا ہے۔ ایک مخصوص طبقے سے نفرت اورنفرت کے عنوانات کے زیر اثر پروان چڑھی ذہنیت سے کسی بھلائی کی امید رکھنا گویا بے وقوفوں کے جنت میں رہنا ہے۔

ان حالات میں بھی جب چاروں طرف وباکی شدت سے ایک عجیب خوف اور دہشت کا عالم ہے،لاکھوں لوگ اس وبا کی بھینٹ چڑھ کر  سورگ سدھار چکے ہیں، لاکھوں لوگ جان کنی کی عالم میں ٹرپ رہے ہیں، اقتدار پر قابض یہ طبقہ آنے والے ریاستی الیکشنس کی فکر میں گُھلا جا رہا ہے اور ہر جگہ اپنا مخصوص نظریہ تھوپنے کی خاطر امن کی جنت میں سانپ بن کر داخل ہونے کی کوشش میں مصروف ہے۔

اتنا سب کچھ دیکھنے، سننے اور سمجھنے کے باوجود ہمارا جو رویہ ہے وہ قابل افسوس ہی نہیں قابل رحم بھی ہے۔ ایسا لگتا ہے نہ ہمیں اپنی کوئی فکر نہ آنے والے نسلوں کی۔ آنکھوں پر اپنی مکتبہء فکر کی پٹی چڑھائے،مسلکوں کے نام پربنائی گئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں میں مگن، اپنے نام نہاد مذہبی قائدین کی ہر قول اور فعل پر آمنا اور صدقنا پکارتے ہوئے، اپنے اطراف اُٹھنے والے ہر طوفان سے بے پرواہ، سیدھے راستے پر ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ایک ایسی راہ پر دوڑے چلے جارہے ہیں جس کا اختتام ایسی تاریک سرنگوں میں ہونے جارہا ہے جس کے آگے ناکامی اور نامرادی کی گھری کھائیاں ہیں۔ کاش ہم تھوڑی دور اندیشی سے کام لے لیں، ہماری چودہ سو سالہ تاریخ کا ہر صفحہ ہمیں دعوت عبرت دے رہا ہے۔بغداد کے اس دور کو دیکھیں جب ہلاکو خان کی فوجیں شہر کے دروازوں پر یلغار کر رہی تھیں، ہمارے اجداد اس بحث میں تھے کہ مسواک کی لمبائی کتنی ہونی چاہئے، سوئی کے نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں، کیا آج ہمارا حال کچھ ایسا ہی نہیں ہے۔ چاروں طرف سے جب دشمن نے ہم پر نشانہ سادھ لیا ہے، ہر محاذ ہر ہماری مات ہورہی ہے، ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ مرغی جب انڈا دیتی ہے اس وقت اس پر جو تری ہوتی ہے وہ پاک ہے یا ناپاک، مواصلات کے جدید برقی ذرائع(جو بلا تفریق اسکے اندر جو انڈیلا جاتا ہے چاہے وہ کتنی ہی فحش کیوں نہ ہو ظاہر کردیتی ہے)، اُن کے ذریعہ دین کی تبلیغ کا کیا حکم ہے، (حالانکہ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو وہاں تو صرف تصویریں ہوتی ہیں، دنیاجو اصل ہے یہاں فحاشی اور جنس پرستی اب عام ہی نہیں بے لگام ہوچکی ہے، کیا ایسے میں یہاں دین کی تبلیغ جائز ہے)۔  افسوس صد افسوس اس بات پر ہم غور و فکر کرکے بحث کرنے کے لئے تیار ہیں کہ آن لائن تعلیم شرعاًجائز نہیں لیکن اس بات پر غور و فکر کرنے کے لئے ہمارے پاس وقت اور فرصت نہیں کہ ہم، ہماری آنے والی نسلوں کو کیسے اس قابل بنائیں کہ زمانہ ان کامحتاج ہوجائے۔

اب بھی وقت ہے، سنبھل جائیے!! اس سے پہلے کا وقت کا مورخ ہماری بربادی کی داستاں لکھنا شروع کردے ہمیں خوش فہمیوں کے خول سے باہر آنا ہوگا۔ دور اندیشی اور بصیرت سے کام لیتے ہوئے اکابر پرستی اور اندھی تقلید کا جو طوق ہم نے اپنے گلوں میں تمغہ سمجھ کر ڈال رکھا  نکال پھینکنا ہوگا۔ قرآن وسنت کی روشنی میں ایک لائحہ عمل بنا کر، نفرتوں کا جواب محبت سے دیتے ہوئے، مکر کرنے والوں کے مکر کو حکمت عملی سے توڑنا ہوگا۔ اگر ہم اب بھی نہیں سنبھلے، مسلکی جھگڑوں اور لایعنی بحث و تکرار میں مصروف رہے تو ہمارا انجام اتنا دردناک ہوگا کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

Comments

Popular posts from this blog

اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ............ اسانغنی مشتاق رفیقی