جذباتیت، اختلافات اور سیاست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
جرعات
گزشتہ دنوں سوشیل
میڈیا میں ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں ایک مخصوص مسلک سے وابستہ صاحب
لہک لہک کر ایک شعر سنا رہے تھے جس میں ایک اور مخصوص مسلک کے افراد کو گستاخ رسول
کہہ کر ان کا مذاق اُڑایا گیا تھااور بردران وطن کو، اس حوالے سے، ان سے بہتر کہا
گیا تھا۔ اس شعر پر پورا مجمع مخصوص نعروں کے ساتھ اُن پر واہ واہ کے ڈونگر ے برسا
رہا تھا اور کچھ افراد تو کرنسی نوٹ بھی نچھاور کر رہے تھے۔ ایسے ہی ہمارے لکھے
ہوئے ایک مضمون پر، جس میں تمام مسلکی اختلاف کو ایک طرف رکھ کر متحد ہونے کی دعوت
دی گئی تھی، اک صاحب تبصرہ کرتے ہوئے اس بات پر اڑگئے کہ اتحاد سے بھی بڑی چیز عقیدہ
ہے، ایک بد عقیدہ سے کسی بھی حال میں اتحاد ممکن نہیں،چاہے اس کی وجہ سے پوری امت
پر پریشانیوں کا کوئی پہاڑ ہی کیوں نہ گر جائے۔ موصوف کا اس پر اصرار رہا کہ اتحاد
تبھی ممکن ہے جب سب اُن کے مسلک کو حق مان لیں۔
اس بیچ فیس بک میں
ایک اور مضمون سے سامنا ہوا جس میں نوجوانوں کی جذباتیت کو ہدف بناتے ہوئے انہیں
امت کے مسئلوں کو لے کر سنجیدگی دکھانے کی
دعوت دی گئی تھی۔ اور یہ کوئی غلط مشورہ بھی نہیں تھا، موجودہ دور میں ملت کا سب
سے زیادہ نقصان جذباتیت کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔ لیکن سوشیل میڈیائی دانشووروں کا ایک
مخصوص طبقہ اس بات کو بھی لے اُڑا، اور صاحب مضمون پر بزدلی اور یاسیت پھیلانے کے
طعنے دینے لگا، ان کی اس قدر ہجو کی گئی کہ بہت سارے سنجیدہ لکھنے والوں کو ان کی
مدافعت میں آنا پڑا۔ حالانکہ بات بہت معمولی تھی لیکن اس میں سے چھوٹے موٹے کیڑے ہی
نہیں تباہی و بربادی کے ایسے ایسے ڈاینوسورس نکالے گئے کہ الامان الحفیظ۔۔۔
اس پس منظر میں
وطن عزیز کے دو نامور سیاسی دفتروں سے دو مختلف خبریں مو صول ہوئیں۔ حکمران جماعت
کی طرف سے یہ عندیہ سامنے آیا کہ وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں،متوقع اسمبلی
انتخابات2022، اکثریتی طبقے کو لبھانے والی
جذباتی مدعوں پر لڑے گی۔ حزب مخالف جماعت کی جانب سے یہ خبر موصول ہوئی کہ اس نے
آنے والے انتخابات میں اقلیتوں کے ووٹ کونظر میں رکھتے ہوئے مشاعروں کے ایک مشہور
شاعر جو کہ اپنی مترنم اور جذباتی شاعری سے اچھی خاصی عوامی پہچان بنا چکے ہیں، کو
اپنی اقلیتی سیل کاسکریٹری منتخب کیا ہے۔
بظاہر اوپر بیان
کئے گئے تمام خبروں اور واقعات میں کوئی ربط نہیں ہے لیکن سنجیدگی سے غور کریں تو
ایک بات کھل کر سامنے آئے گی کہ ان سب میں مرکزی چیز جذباتیت ہے جس کے ذریعے ہر
کوئی اپنا ہدف پانا چاہتا ہے۔
حکمران جماعت کا یہ
عندیہ کے وہ ایک ایسے صوبے کے متوقع اسمبلی انتخابات میں،جہاں ہماری ایک بہت بڑی
تعداد رہتی ہے، (لیکن یہاں مسلکی اختلافات کے جراثیم ہم میں اس حد تک سرایت کرائے
جا چکے ہیں کہ ہم اپنے بد ترین دشمنوں کو بھی برداشت کرنے کو تیار ہیں، لیکن اپنے
کلمہ گو بھائیوں کونہیں۔ نام نہاد مذہبی قائدین نے عقیدہ کے نام پرجو دیواریں
ہمارے بیچ کھڑی کر رکھی ہیں ان کا مقام ہمارے نزدیک کعبہ و قبلہ سے بھی بڑھ کر
ہے۔) ایسے مسئلوں کو اُٹھا کر جیت حاصل کرنا چاہتی ہے جس کی محور ہماری ذات ہے۔
مسجد مندر کے نام پر ہو یا وطن پرستی کے نام پر سارے تیر کا نشانہ ہم ہی بنتے ہیں یا
زبردستی بنائے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ جماعت ہماری تمام کمزوریوں سے ہم سے زیادہ واقف
ہے، وہ یہ بھی جاتنی ہے کہ ایک کتاب ایک قبلہ اور ایک کلمہ کے دعویدار ہم لوگ آپس
میں کس حد تک الجھے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں وہ یہ بھی جاتنی ہے کہ جذباتی مسئلوں کو
اُٹھا کر کس طرح ہمیں بے قابو کیا جاسکتا ہے اور اس کے عوض میں اکثریتی طبقے کا
ووٹ با آسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔بات یہیں تک نہیں رکی ہے، حزب اختلاف بھی ہماری
رگ رگ سے اس حد تک آشنا ہے کہ اس نے ہماری قیادت کے لئے ایک ایسے بندے کو چنا ہے
جس کا شمار جذباتیت کے حوالے سے ماہرین میں ہوتا ہے۔ آپ لاکھ تاویل کرلیں، وطن عزیز
میں آپ کی شناخت ایک ایسے گروہ کی ہے جسے آسانی سے مشتعل کیا جاسکتا ہے۔ ستر سالوں
سے رد عمل کی سیاست میں آپ کو الجھا کر کس کس نے آپ کو الو بنایا؟ اگر آپ بصیرت کی
آنکھوں سے دیکھنا چاہیں تو ایک طویل فہرست آپ کے لئے مہیا ہوسکتی ہے۔
کہیں گستاخ رسولؐ
کے نام پر، کہیں گستاخ صحابہؓ کے نام پر، کہیں منکر بزرگان دین کے نام پر، کہیں
توہین علماء کرام کے نام پر ہم میں کا ہر کوئی، ہم میں سے ہر ایک پر اپنی اجارہ
داری قائم کرنے کے لئے ہمارا استحصال کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اور ہم ہیں کہ یہ سمجھے
بغیر کہ کوئی بھی کلمہ گو نہ گستاخ رسولؐ ہوسکتا ہے نہ گستاخ صحابہؓ نہ منکر
بزرگان دین ہوسکتا ہے او رنہ توہین علماء کرام کا مرتکب،ایک دوسرے سے زبردستی دشمنی
پالنے میں لگے ہوئے ہیں۔ہاں! ہمارے بیچ کچھ معمولی اختلافات ضرور ہیں، جنہیں چند
مفاد پرستوں نے اپنے مطلب کے لئے جذباتی عنوانات دے رکھے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھ
لیں،جب تک آپ قرآن و سنت سے راست رابطہ قائم نہیں کریں گے آپسی سر پٹھول میں مبتلا
رہیں گے۔
حالات روز بروز
بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ کل ہم پر کون سا تیر کہاں سے پھینکا جائے گا اس بات سے
نادانی کی حد تک ہم ناواقف ہیں۔ ہمارے درمیان جو بھی اختلافات ہیں انہیں ایک طرف
رکھئے، خدارا اس خدا کے نام پر جس کو ہم کائنات کا مالک سمجھتے ہیں، ایک ہو جائیے،
اس رسول کے نام پر جس کے ذکر کے بغیر ہمارا کلمہ مکمل نہیں ہوتا، قریب آجائیے۔
اختلافات میں الجھے بغیر ملت کی فکر رکھنے والے درد مند دانشمندوں اور علماء کرام
سے مل کر ایک لائحہ عمل مرتب کیجئے۔ اگر آپ سچی طلب اور جستجو کے ساتھ اٹھیں گے تو
یقین رکھئیے اللہ کی مدد آ پ کے ساتھ ہوگی۔
زندگی کے ہر میدان میں آپ ہی سرخرو ہوں گے۔
Comments
Post a Comment