آلام اور مصیبتوں کا انبوہ۔۔۔ کیا یہ آزمائش ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق رفیقی
جرعات
رنج و غم، دکھ درد، تکلیف اور پریشانی کا انسانی زندگی کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے اور یہ رشتہ انسان کی آخری سانسوں تک اس سے جڑا رہتا ہے۔ بقول غالبؔ
قید ِ حیات و بندِ غم،اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
انسان چاہے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے،آسمان پر کمندیں ڈال کر خلاؤں اور ستاروں پر کیوں نہ گھر بسا لے، آرام و آسائش کے اشیاء سے اپنی زندگی کو کتنا ہی آسان کیوں نہ کرلے، پھر بھی دل کے کسی کونے میں اسے کسی بات کارنج،دکھ یا تکلیف ضرور محسوس ہوتا رہتا ہے اور کبھی کبھی یہ احساس اسقدرقوی ہوجاتا ہے کہ انسان بددل ہو کر آدم بیزار ہوجاتا ہے گوشہ نشینی اختیار کر لیتا ہے اور دنیا سے ہی سنیاس لے لیتا ہے، یا شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر اپنی حواس کھو بیٹھتا ہے اور پاگل ہوجا تا ہے یا مایوسی کا شکار ہو کر خود کشی کر بیٹھتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ازل سے یہ سوال سوچ بچار رکھنے والے ہر انسان کے آگے ایک للکار کی شکل میں کھڑا ہے۔ اس حوالے سے فلسفیوں اور دانشوروں نے کئی توجہیات پیش کی ہیں، کئی نظریے دئے ہیں، اربوں کھربوں صفحات سیاہ کر کے اس کا حل تلاش کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن سب سے زیادہ سمجھ میں آنے والی وضاحت دین اسلام ہی میں ملتی ہے۔ دین اسلام، رنج دکھ اور تکلیف کو آزمائش سے تعبیر کرتا ہے اور رب کی خوشنودی حاصل کرنے کا انہیں ایک راستہ کہتے ہوئے صبر کے ساتھ ان کا سامنا کرنے کی بات کہہ کر انہیں اونچائی پر پہنچنے کا زینہ بتاتا ہے۔اسلام کے نزدیک ہر انسان کو پہنچنے والا درد اور تکلیف ایک طے شدہ امر ہے اس لئے اس سے فرار ناممکن ہے۔ لیکن یہ طے شدہ امر اپنے اندر اس کے لئے ایک شاندار خوشخبری بھی رکھتی ہے اگر وہ صبر کے ساتھ اس درد اور تکلیف کے سمندر کو پار کر کے مطلوب تک پہنچ جائے۔
قران مجید میں اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:اورہم ضرور بہ ضرور تم کوآزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادیں جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں اور ہم اسی کی طر ف لوٹنے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے پے در پے نوازشیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔۔۔ 155 تا 157 سورۃ البقرۃ
یعنی انسان کو پہنچنے والی تکلیف، رنج،درد حقیقت میں اس کے رب کی طرف سے آزمائش ہے تاکہ وہ اس میں سرخرو ہو کر آنے والی ابدی زندگی کے قابل ہوجائے۔ یہ نظریہ انسان کو ہر قسم کے آفات سے لڑنے کے لئے ہمت و جراءت ہی نہیں مضبوط حوصلہ بھی دیتا ہے۔ اسے مایوسی میں مبتلا ہوئے بغیر حالات سے لڑنے کا عزم دیتا ہے۔اس نظریے کا حامل انسان مصیبتوں کا سامنا کرنے سے ڈرتانہیں بلکہ بے خوف اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرصبر و استقلال کے ساتھ اس سے مقابلہ کرتا ہے اور اپنے رب سے بہتری کی امید رکھ کر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ گھبراہٹ کے شکنجے سے نکل کر سکون کی فضاؤں میں پرواز کرنے لگتا ہے۔ چاہے مصیبت رائی کے دانے کے برابر ہو یا کائنات اتنی بڑی، چاہے یہ درد اُسے جان سے زیادہ عزیز اپنوں کی وجہ سے ہو یا غیروں کی وجہ سے، وہ پوری جراءت سے اس کے آگے ڈٹ جاتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے یہ در حقیقت اس کی آزمائش ہے، اگر وہ اس کی وجہ سے ہونے والی تھوڑی سی تکلیف صبر اور مستقل مزاجی کے ساتھ برداشت کر لے تو اس کا مستقبل فلاح کی منزل تک ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجائے گا۔
موجودہ دور انسانوں کے لئے بہت ساری آسانیاں فراہم کرتا ہے ان میں بہت ساری ایسی آسانیاں اورآسائشیں بھی ہیں جو گزشتہ دور کے حکمرانوں اور شہنشاہوں کو بھی میسر نہیں تھیں۔ایک صدی پہلے تک بھی انسانی وہم و گمان جس کے قریب نہیں پہنچ سکے تھے جو صرف الف لیلوی داستانوں میں پائے جاتے تھے، آرام و آسائش کے ایسے سامان آج ہر انسان کے بس میں ہیں۔ اور اسی کے ساتھ یہ دور مصیبتوں اور پریشانیوں کا ایسا انبار بھی لایا ہے جس کا انسانی تاریخ نے کبھی مشاہدہ ہی نہیں کیا۔ خانگی معاملات ہوں یا معاشی معاملات، سماجی معاملات ہوں یا سیاسی معاملات ہر جگہ دکھ اور درد دینے والے ایسے ایسے نشتر ملتے ہیں کہ انسان کا دل چھلنی ہو کر رہ جائے۔ ایسے میں زندگی کے ہر میدان میں اولیت حاصل کرنے کی بد ترین دوڑ، کسی کو کسی کی پرواہ نہیں، ہر کوئی بس آگے بڑھنے کے جنون میں مبتلا،چاہے اس کے لئے اُس کو کسی کو روندتے ہوئے بھی کیوں نہ گذرنا پڑے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہورہی ہے، مسلمانوں کے لئے تو اس کے آگے بھی رنج و پریشانی کا ایک آگ کا دریا ہے جواُن کے مسلمان ہونے کی سزا کے طور پر اُن کے آگے بچھا دیا گیا ہے جس سے ہر مسلمان کو ہر روز گذرنا پڑ رہاہے۔حالات اتنے بد تر ہیں کہ اچھے اچھوں کے ہاتھوں سے صبر کا دامن چھوٹتا جارہا ہے۔
دنیا کے ہرخطے میں جہاں جہاں کلمہ گو موجود ہیں یاتو جسمانی تکالیف میں مبتلا ہیں یا ذہنی درد میں، طاغوت کے بچھائے آلام اور مصیبتوں کے جال میں پھنس کر کچھ مرتد ہوگئے ہیں اور بہت سارے بے یقینی کے کیفیت میں مبتلا،حالانکہ اللہ رب العزت نے قرآن میں صاف صاف کہہ رکھا ہے کہ:(اے مسلمانو!) تم کو ضرور بہ ضرور تمہارے اموال اور تمہاری جانوں میں آزمایا جائے گا اور تمہیں بہر صورت ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب د ی گئی تھی اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں،بہت اذیت ناک (طعنے) سننے ہوں گے اور اگر تم صبر کر تے ہو اور تقویٰ اختیار کئے رکھو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔۔۔186 سورۃ آل عمران
آزمائش کا یہ دور یقیناً بہت ہی سخت ہے۔ اس لئے بھی سخت ہے کہ مسلمانوں کے پاس ان مصیبتوں سے دفاع کے لئے کچھ بھی وسائل نہیں ہیں ، ان کے یہاں سیاسی اقتدار پر ایسے ملوکیت پرست لوگوں کا قبضہ ہے جن کے نزدیک اقتدار ہی سب کچھ ہے وہ اس پر قبضہ جمائے رکھنے کے لئے طاغوت سے گٹھ جوڑ کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کے دانشور اور علماء گروہ بندی، موقع پرستی اور جاہ پرستی کے مرض میں مبتلا،ان کے مالدار شہرت اور جمع خوری کے ہوس میں گرفتار، ان کے جوان کاہل اور سست، جنسی بے راہ روی کے شکار، ان کی عورتیں جاہل، توہم پرست اور نادان،ان کے بوڑھے ضدی اور حالات کو سمجھنے سے معذور،ایسے میں چھوٹی سی چھوٹی مصیبت بھی پہاڑ جیسی لگ رہی ہے۔ دیکھا جائے تو ایک طرح سے یہ حالت بھی ایک قسم کی آزمائش ہی ہے۔ اس آزمائش میں مسلمانوں کے لئے ایک پیغام بھی ہے اگر وہ پڑھنا چاہیں!! ان تمام دائروں سے جن پر یہ تکیہ کئے بیٹھے ہیں نکل کر اپنے رب سے اخلاص کے ساتھ لو لگانی ہوگی، ہر قسم کی گروہ بندی سے اوپر اٹھ کر نئی صف بندی کر کے ایک مضبوط آہنی دیوار کا منظر پیش کرنا ہوگا۔ آزمائش کا یہ دور یقیناً بہت ہی سخت ہے لیکن جس نے بھی اس آزمائش کو سمجھ لیا اس کے بین السطور کو پڑھ لیا اور صبر اور تقویٰ کے ساتھ اس کا سامنا کیا اس نے فلاح پالی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment