نفسی نفسی کا واویلا یا انصاف اور انسانیت کی پاسداری ....................... اسانغنی مشتاق رفیقی
غنیم بہت مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ اس کی ہر چال میں بلا کی عیاری، ہر پیش قدمی منصوبہ بند اور ہر وار شدید تر اور جیت کے نشہ سے سرشار ہے۔ اس کی ہر حکمت عملی کامیابی سے ہمکنار ہو رہی ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ اس کی صفوں میں اتحاد ہے، اس کے دلوں میں مقصد کو پانے کی شدید تڑپ ہے، اپنے امیر پر اسے اندھا اعتماد ہے۔ گزشتہ ایک صدی سے زائد کی اُس کی محنت اور منصوبہ بندی، آج اُسے اس مقام پر لے آئی ہے کہ وہ سماج کے ہر شعبے کو اپنی مرضی پر چلا رہا ہے۔ سیاست کے میدان میں اس کا دبدبہ اس قدر حاوی ہوچکا ہے کہ اس میدان میں موجود اُس کے مخالفین بھی اسی کی طرز پر سیاست کرنے پر مجبور ہیں۔ اِس کے اس قدر معاشرے پر چھا جانے کے پیچھے ایک اور وجہ بھی ہے اور ہے ہماری ذات۔
کئی دہائیوں سے غنیم نے ہماری ذات کو نشانے پر رکھ کر ایک لائحہ عمل ترتیب دی اور اس پر مسلسل عمل پیرا رہا۔ ہمارے تعلق سے جھوٹی باتیں پھیلا کر اور تہمتوں کے انبار لگا کر اُس کو اس شدت سے ہوا دی کہ سماج کے ہر طبقے میں ہمارے خلاف غیض و عداوت اور نفرت پیدا ہوتی چلی گئی۔ دنیا کی تمام برائیوں کا جڑ، سماج میں موجود تمام بے انصافیوں کی وجہ،معاشرے میں بڑھتی معاشی گراوٹ کا سبب ہماری ذات بتا کر ہمارے خلاف ایسا ماحول تیار کیا کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت اپنے اوپر ہونے والی تمام نا انصافیوں کو ایک طرف رکھ کر ہماری ذات سے نفرت اور ہم سے چھٹکارے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا بیٹھی ہے۔ ہمارے خلاف یہ نفرت اتنی شدید ہے کہ بہت ساروں کی نظروں میں ہماری حیثیت مرے ہوئے جانور سے بھی بد تر ہے۔ کوئی ہمیں کتے کے پلے سے تشبیہ دے رہا ہے تو کہیں ہمیں سڑکوں پر لاٹھی اور پتھروں سے پیٹ پیٹ کر اتنی دردناک موت دی جارہی ہے کہ کوئی شریف النفس انسان کسی پاگل کتے کے لئے بھی یہ بات گوارا نہ کرے۔
نفرت اور عداوت کے اس شدید طوفان میں اگر کوئی انسانیت، انسانی اقداراور
انسانی ہمدردی کی بات کر تا ہے تو عتاب کی بجلیاں اس پر اس قدر برسائی جاتی ہیں کہ وہ بے چارہ انسانیت کی باتیں ایک طرف رکھ کر پناہ گاہیں ڈھونڈنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ہمدردی کے دو بول اگر کوئی اپنی سیاسی فائدے کے لئے ہماری ذات کے تعلق سے کہہ دے تو اس کی اتنی ہجو گوئی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے الفاظ واپس لینے میں یا آئندہ خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھنے لگتا ہے۔ یہ نفرت اب صرف ہماری ذات تک محدود نہیں رہ گئی ہے بلکہ یہ ہماری ذات سے بڑھ کرکھلے عام ہماری زبان سے، ہمارے استعاروں سے،ہمارے رسوم ورواج سے،ہمارے طرز لباس سے بھی شدید ہوتی جا رہی ہے۔ کوئی ہماری پہچان ہمارے لباس سے جوڑ کر ہم پر طنز کے تیر برساتا ہے تو کوئی ہماری عبادتوں کے حوالے سے ہم پر طعنہ کستا ہے۔ کہیں اس لئے ہنگامہ برپا کر دیا جاتا ہے کہ ان کے تہوار کو کیوں ہماری زبان اور ہمارے استعاروں میں پکارا گیا اور کہیں عوامی جگہ اور کھلے میدان میں ہمیں پانچ دس منٹ عبادت کرنے سے بھی یہ کہہ کر زبردستی روک دیا جاتا ہے کہ جگہ قبضہ کرنے کی چال ہے۔
آخر کیا وجہ ہے غنیم نے اقتدار تک پہنچنے اور سماج میں اپنی بالا دستی قائم کر نے کے لئے ہماری ذات کو ہی سیڑھی بنا یا حالانکہ اس کے لئے اور بھی بہت سے راستے موجود ہیں۔کیا صرف اس لئے کہ ہمیں باآسانی نشانہ بنایا جاسکتا ہے کیونکہ ہم یہاں کی بڑی اقلیت ہوتے ہوئے بھی بکھرے ہوئے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں مٹانے کے لئے اتنی لمبی چوڑی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری ذات میں ضرور ایسی کوئی بات ہے جس سے غنیم اس قدر خوفزدہ ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی پکڑ مضبوط کرنے سے پہلے ہمیں لوگوں کی نظروں میں بے وقعت کرنا چاہتا ہے اور ہماری پہچان اتنی دھندلا دینا چاہتا ہے کہ کوئی شدید ضرورت کے وقت اور کیسی ہی نا مساعد حالات میں بھی ہماری طرف دیکھنے کی تو دور کی بات ہمارے تعلق سے سوچنے کی بھی ہمت نہ کرسکے۔ شاید ہمیں یہ بات معلوم نہ ہو لیکن ہمارا غنیم یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر جس دین کے ہم نام لیوا ہیں اس کی چند بنیادی تعلیمات پر اس گئے گذرے حالات میں بھی ہم مضبوطی کے ساتھ اکٹھا ہوجائیں تو پھر دنیاکی کوئی طاقت ہمیں سرنگوں نہیں کرسکتی اور ساری انسانی آبادی رہبری کے لئے ہماری طرف دیکھنے پر مجبور ہوجائے گی اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سماجی ناانصافی، ظلم و جبر، نفرت اور بغض جیسے شدید امراض میں مبتلا انسانیت کی مسیحائی اگر کہیں سے ہوسکتی ہے تووہ صرف دین اسلام سے، جس کے ہم ماننے والے ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارا غنیم ہمارے تعلق جس بات کو لے کر خوفزدہ ہے اس کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں ہے اور ہم دوسرے کئی زاوئیے سے اس سے نبرد آزما ہونے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اس سے ہر محاذ پر مات پر مات کھائے جا رہے ہیں۔ ہماری مکمل کوشش یہی ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں،اپنے لئے لڑیں، ہمارے اوپر جو ظلم ہورہا اور ہمارے ساتھ جو ناانصافی ہورہی ہے دنیاکی توجہ اس کی طرف مبذول کراکر اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کریں، اور غنیم خوش ہے کہ اس نے ہمیں الجھا کر ایک ایسے صحرا میں بھٹکا دیا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہم آہ و بکا کرتے اور واویلا مچاتے نفسی نفسی چلاتے اس میں بھٹکتے رہیں گے، دنیا ہمیں نوحہ گری کی رسیا قوم سمجھ کر دھیرے دھیرے ہماری طرف متوجہ ہونا بند کر دے گی اور یوں ہمارا غنیم اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا۔ اپنے لئے اور اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن بحیثیت ایک مومن مسلمان یہ ہماری شان کے خلاف ہے کہ ہم صرف اپنے لئے سوچیں اور صرف اپنے لئے جدوجہد کریں۔
رب العالمین نے ہمیں رحمت اللعالمینﷺ سے وابستہ کر کے ایک ذمہ داری سونپی ہے، انصاف اور انسانیت کی پاسداری کی ذمہ داری۔ ہماری کامیابی عزت اور ذلت کا دارو مدار اسی بات پر ہے کہ ہم اس ذمہ داری کو کس طرح نبھاتے ہیں۔ اگر ہم نے ہر حال میں انصاف کا پرچم بلند رکھا، ظلم اور بربریت کے خلاف سینہ سپر رہے انسانیت کے لئے دوسروں کواپنی ذات پر ترجیح دی تو گویا ہم نے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی اور اگر اس کے برعکس صرف نفسی نفسی کرتے رہے تو اس کا مطلب ہے ہم نے ذمہ داری نبھانے میں سخت کوتاہی کی۔ رب العالمین نے کوتاہی کرنے والوں کو کس طرح ذلیل و رسوا کیا اس تعلق سے بحیثیت حاملین کتاب ہم سے بہتر کون واقف ہوگا۔
یہ بات گرہ میں باندھ لیں کہ موجو دہ حالات میں جب تک ہم اپنی حکمت عملی نہیں بدلیں گے، صرف اور صرف اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور جبر کے خلاف صدا بلند کرنے کے بجائے ہر مظلوم کی پکار نہیں بنیں گے، سماج میں ہونے والی ہر ناانصافی کے خلاف صف آرا نہیں ہوں گے، غریب مجبور اور بے کس عوام کی آواز بن کر جب تک ایوانوں میں نہیں گونجیں گے ہمیں سوائے ذلت و رسوائی، شکست و ناکامی کے کچھ نہیں ملنے والا۔ غنیم جانتا ہے کہ جب آپ حکمت عملی تبدیل کر کے اپنا حق مانگنے کے بجائے مظلوموں کی پکار بن کر میدان عمل میں اُسے للکاریں گے تو اس کو منہ چھپانے کے لئے بھی کہیں جگہ نہیں ملے گی۔ اُسے ایک ایسے بدترین شکست کا سامنا ہوگا جس کے بعد اس کا وجود صفحہء ہستی سے اس طرح مٹ جائے گا جیسا کبھی تھا ہی نہیں۔ اس لئے وہ اپنے پاس موجود ہر ہتھکنڈا آزما رہا ہے، اپنے ترکش میں موجود عیاری کے ہر تیر سے اور اپنے طمنچے میں موجود مکاری کی ہر گولی سے ہمیں نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ اس کے لئے فنا اور بقا کی جنگ ہے۔ لیکن ہمارے لئے یہ انصاف کی لڑائی ہوگی اگر ہم نے اسے رب کی طرف سے ہم پر ڈالی گئی ذمہ داری سمجھ کر لڑی۔
ممکن ہے انصاف کی اس لڑائی میں ہم جن کی صدا بنیں گے وہ مظلوم ہوتے ہوئے بھی ہماری مخالفت میں پیش پیش رہنے والے ہوں گے، ظالموں کے ساتھ مل کر ہم پر جبر کے دروازے وا کرنے والے ہوں گے لیکن ہمیں اس بات کو اہمیت دئے بغیر رحمت اللعالمین کے امتی ہونے کے حیثیت سے ایسے افراد کے لئے رحمت اور امن و امان کا فرستادہ بننا ہوگا جو ہماری راہ میں کانٹے بچھاتے رہتے ہیں۔ اپنی ذات کے لئے صبر کا دامن تھامے اور مظلوموں، ٹھکرائے ہوئے دبے کچلے لوگوں کے لئے انسانیت کے ناطے ڈھال بن کر جب تک ہم میدان عمل میں نہیں آئیں گے ذلت و رسوائی شکست و ناکامی سے ہی ہمیں جوجھتے رہنا ہوگا۔
اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے کاش یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment