شہر وانم باڑی اور اس کی تہذیب ، زوال کے کگار پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق رفیقی

جرعات:۔۔۔ ہمارا شہر وانم باڑی ضلع ویلور ترپاتور میں ہی نہیں پوری ریاست ٹمل ناڈو میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتا ہے۔ بالخصوص ٹمل ناڈو کے اردو بولنے والے علاقوں میں شہر وانم باڑی مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کی تہذیب،ان کا طرز تکلم، ان کا بلند اخلاق، ان کی فیاضی، تعلیمی معیار، دانشمندی، مذہبی فکر، سیاسی بصیرت آس پاس کے تمام شہروں میں مثالی مانی جاتی رہی ہے۔ ایک زمانے تک ملّی،ملکی اور کاروباری مسائل میں رہنمائی کے لئے آس پاس کے لوگ ہمارے شہر کے دانشوروں کی طرف متوجہ ہوتے تھے یا ان مسائل سے نپٹنے میں ہمارے طرز عمل کو دیکھ کر اس کی تقلید کرتے تھے۔ تعلیم کے میدان میں بھی ہمارے شہر کی حیثیت مسلم رہی۔ علاقے کا پہلا کالج ہمارے شہر میں ہی بنا تھا۔ جس سے متاثر کے ہوکر دوسرے شہروں میں اسکول اور کالجس قائم ہوئے۔ لڑکیوں کے لئے اسکول، کالج اور ان کی مذہبی تعلیم کے لئے مدرسہ کا قیام، ایک ایسی پہل رہی جس کی مثال نہ صرف ٹمل ناڈو کے اردو بولنے والے شہروں میں بلکہ ٹمل بولنے والے مسلمانوں کے علاقوں میں بھی ملنی مشکل ہے۔شہر کے تعلیمی معیار اور تعلیمی سرگرمیوں کو دیکھ کر لوگ اسے جنوب کا علی گڑھ پکارنے لگے تھے۔ اردو زبان و ادب کے کئی ماہرین یہاں پیدا ہوئے جنہوں نے شمال والوں سے اپنا لوہا منوایا۔ لیکن یہ سب اب ایک خواب پارینہ بنتا جارہا ہے۔ پتہ نہیں اس خوبصورت شہر کو کس کی نظر لگ گئی ہے ، ہر پہلو سے اور ہر بات میں اس کی انفرادیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ اب یہاں ہماری آبادیاں ایک ایسی گھیٹو بنتی جارہی ہیں جس کی پہچان ہر اخلاقی برائی ہے،نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت، جو بے روز گار یا غیر تعلیم یافتہ ہے نہ صرف نشہ کی عادی ہوتی جارہی ہے بلکہ ان میں اور بہت ساری اخلاقی برائیاں بھی سرائیت کرنے لگی ہیں۔ شہر کے تعلیم گاہوں میں تعلیم کا معیار کمتر ہی نہیں گھٹیا ہوتا جارہا ہے۔ زبان و ادب کا تو پوچھنا ہی کیا، چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نئی نسل میں کوئی معیاری لکھاری نہیں ملتا۔ ایسا کیسے ہوگیا۔ ایک اچھا بھلا شہر جہاں آج بھی کئی تعلیمی ادارے اور مدرسے اپنی خدمات میں دن رات مگن نظر آرہے ہیں، ساٹھ سے زیادہ مساجد جو اکثرنمازیوں سے بھری رہتی ہیں، خوبصورت عمارتوں اور چمچماتی کاروں میں پھرنے والے کاروباری جن کی لمبی چوڑی فیکٹریاں شہر کے کئی افراد کو روزگار مہیا کراتی ہیں، کیونکر تیزی سے تہذیبی زوال کے راستے پر آگیا؟ اس سوال کے جواب میں یوں تو کئی صفحات سیاہ کئے جاسکتے ہیں لیکن اختصار سے لکھا جائے تو اتنا کافی ہے کہ، یہاں کے علماء،اساتذہ، دانشورں اور رہنماؤں کی تو تو میں میں اور قول وعمل میں تضاد، صاحبانِ کاروبار کی بڑھتی ہوئی زر کی ہوس اور جاہ پرستی، عوام کا اپنی ذات میں مگن ہوجانا، نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بزدلی اور کاہلی، ہوش اور دور اندیشی کا فقدان، ایسے امور ہیں جس کی وجہ سے ہمارا یہ پیارا سا شہر تہذیبی زوال کے کگار پر ہے۔ کوئی لاکھ انکار کرے یا تاویلات پیش کرے، شہر کو اس منزل تک لانے میں شہر کے صاحبان زر کا ایک بہت بڑا کردارہے جن کے سایہء عاطفت میں شہر کے علماء، اساتذہ، دانشور اور رہنما پلتے پھولتے تھے ۔ جب سے ان صاحبانِ زر نے اپنی بے پناہ کاروباری مصروفیتوں کے باوجود، کرسی اور درجہ کی ہوس میں تعلیمی اور رفاہی اداروں پر قابض ہوکر وہاں بھی اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لئے کاروباری چالاکیوں کو آزمانا شروع کیا، تعلیم اور خدمت کا معیار گرتا چلا گیا۔ بظاہر جھونپڑوں اور معمولی عمارتوں کی جگہ بڑی بڑی تین تین منزلہ عمارتیں بن گئی، لیکن کاروباری ذہنیت نے ان رفاہی اداروں کی مقصدیت ختم کردی۔ آس پاس کے وہ علاقے جو تعلیمی رہنمائی کے لئے ہماری طرف دیکھتے تھے وہاں اعلیٰ تعلیم کے نئے نئے مراکز قائم ہوگئے اور وسائل کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے ادارے اپنے موجودہ مراکز میں تعلیمی معیار کو بلند رکھنے میں بری طرح ناکام رہے۔ہمارے تعلیم نسواں کے لئے قائم کئے گئے مدرسے اسکول اور کالج اس قدر انتشار کے شکار ہیں کہ طالبات کو وہاں سے مستقبل کی کوئی صحیح رہنمائی دستیاب نہیں ہو رہی ہے۔ سب سے بڑا خطرہ جو اب کھل کر سامنے آگیا ہے وہ یہ کہ یہ رفاہی ادارے جن کا مقصد شہر کے عوام اور خاص کر مسلمانوں کے تعلیمی معیار کو بلند کرنا تھا اپنی مقصدیت کھو کر مخصوص گھرانوں کی اجارہ داری میں منتقل ہوتے جارہے ہیں اور آگے چل کر یہ گھرانے انہیں کاروباری اداروں کی شکل بھی دے سکتے ہیں۔ ان اداروں میں تعلیمی معیار کے گرنے کی ایک اور وجہ، یہاں کے اساتذہ کی تدریس کے لئے صحیح سائنسی رہنمائی کا نہ ہونا بھی ہے۔ یہ بیچارے، موجودہ نئی نسل کے طلبا ء کی نفسیات سے بالکل ناواقف ہیں اور ان کی ذہنیت سمجھنے سے قاصر۔ اگلے زمانوں کی طرح یہ آج بھی ڈنڈے کی زور پر انہیں سبق رٹانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے مطلوبہ معیار حاصل نہیں ہورہا ہے۔ یہ ذمہ داروں کا کام ہے کہ وہ بدلتے وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر اداروں کو اس سے ہم آہنگ کریں۔ لیکن افسوس!!یہ ذمہ دار حضرات جتنا زور ان پر اپنی پکڑ اور اپنی آنے والی نسلوں کی پکڑ مضبوط بنانے میں لگا رہے ہیں اس کا عشر عشیر بھی اس مثبت کام کی طرف لگاتے تو جس تعلیمی گراوٹ کا مظاہرہ ان اداروں کے فارغین سے ہورہا ہے وہ ختم ہوسکتا ہے۔ آس پاس کے کئی ادارے اپنے یہاں سے فارغ ہونے والے طلباء کے لئے روزگار کے مواقع بھی فراہم کراتے ہیں، ہمارے اداروں میں ایسا کوئی معقول نظم نہیں ہے اگر ہے بھی تو محدود پیمانے پر جس کی وجہ سے شہر کے طلباء میں تعلیم سے بے اعتنائی بھی بڑھی ہے اور بے روزگاری بھی۔ اور یہ بے روزگاری ہی ہے جس کی وجہ سے شہر کے نوجوان چھوٹے موٹے کاموں میں اپنا وقت برباد کرنے پر مجبور ہیں، کئی نوجوان تو مایوسی کا شکار ہوکر غلط راستوں پر نکل پڑے ہیں، کئی نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا ہو کر نشے کے عادی بنتے جارہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے عرصے میں شہر میں جو بھی جرائم ہوئے ہیں اگر ان کا تجزیہ کر کے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے بین السطور میں کہیں نہ کہیں ہم سب کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے علماء نے جو منبروں پر کھڑے ہوکر علماء کی تعظیم پر، علماء کی توہین کرنے اور ان سے بد گمانی رکھنے کے وبال پر، علماء کے انبیاء کے وارث ہونے پر گھنٹوں بولتے ہیں، نوجوانوں کی بگاڑ پر، شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم اور نشہ بازی پر جو راست صاحبانِ زر کی ہوس اور جاہ پرستی کا نتیجہ ہے، شاید ہی کبھی ایک دو جملے کہیں ہوں یا ان سے بچنے اور ان کی اصلاح کے لئے ان کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے کوئی لائحہ عمل پیش کیا ہو۔ ہمارے دانشور اور رہنما جو گھنٹوں کسی بھی موضوع پر بولنے اور اسے سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ بھی ان سلگتے مسائل پر بولنے سے کترا رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ زوال کی رفتار تیز ہوجائے اور ہمارا یہ خوبصورت سا شہر اور اس کی تہذیب قصہء پارینہ بن جائے ہمیں جاگنا ہوگا اور ایک مضبوط لائحہ عمل بنا کر میدان میں آنا ہوگا نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

اِتمام حُجت کس پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

تلخ و ترش ............ اسانغنی مشتاق رفیقی