Posts

Showing posts from July, 2020

Zaban-e-Khalq زبان خلق ، شمارہ 42

Image

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

  ٭راہل گاندھی کی وزیر اعظم مودی اور پرینکا کی یوگی پر تنقید۔۔۔ ایک اخبار کی سرخی اور یہ دونوں کر بھی کیا سکتے ہیں، نہ ان کی پارٹی ان کے قبضے میں ہے نہ عوام پر ان کا کوئی اثر و رسوخ باقی ہے، اب کوئی معجزہ ہی انہیں حکومت کے ایوانوں تک پہنچا سکتا ہے، تب تک انہی یہی کرتے رہنا ہے۔ ٭ملک کے موجودہ منظر نامہ کو بدلنے کے لئے نوجوان طبقہ کا سیاست میں آنا ضروری۔۔۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق اسٹوڈینٹ لیڈر ڈاکٹر مشکور عثمانی بے شک اس میں کوئی دو رائے نہیں، صرف سیاست ہی میں نے نہیں ہر میدان میں نوجوانوں کو آگے آنا ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ بوڑھی قیادتوں کا ہے جو ہر حال میں اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک عہدوں اور کرسیوں سے چپکے رہنا چاہتے ہیں، انہیں اپنی اس ضد کے آگے قوم و ملت کی بھی کوئی پرواہ نہیں اور بیچارا نوجوان طبقہ دل میں لاکھوں کروڑوں خواب اور منصوبے لئے بڑوں کی عزت اور تکریم کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش کھڑا ہے۔ ٭بات خلا تک پہنچ گئی؟ امریکہ، برطانیہ کا روس پر خلا میں ہتھیار بھیجنے کا الزام۔۔۔ ایک عالمی خبر یعنی دنیا اب اسپیس وار کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور ہو سکتا ہے بہت جل...

ہمارا معاشرہ، تعلیم اور جوابدہی کا احساس ................................. اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

  جرعات بات بہت اچھی لگتی ہے جب ہم سنتے ہیں کہ تعلیم کی اسلام میں بہت اہمیت ہے، پہلی وحی جو آقائے دوجہاں حضرت محمد ﷺ پر اُتری اس کی شروعات بھی”پڑھو“ سے ہوئی، آپ ﷺ کا یہ قول کہ علم حاصل کرو، اس کے لئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، بڑے فخر سے نقل کیا جاتا ہے، علماء کو انبیا ء کا وارث بتایا جاتا ہے،علم اور خاص کر علماء کی فضیلت پر روزانہ کروڑوں الفاظ لکھے اور بولے جاتے ہیں۔ لیکن جب تصویر کے دوسرے رخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ علم سے سب سے زیادہ بے اعتنائی کرنے والا کوئی معاشرہ اگر دنیا میں موجود ہے تو وہ ہمارا ہی معاشرہ ہے۔ ہمیں اصل میں پتہ ہی نہیں کہ علم کیا چیز ہے، اس کے دھارے کہاں سے پھوٹتے ہیں، یہ کیسے حاصل کیا جاتا ہے، انسان اس کو پا کر کیا سے کیا بن جاتا ہے۔ پدرم سلطانِ بود کی گردان کرتے کرتے ہم اس قدر زعم میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ اپنے علمی زوال کے اسباب پر غور کرنے کے بجائے جہالت اور ہٹ دھرمی کو اپنا طرہء امتیاز سمجھتے ہیں اور اگر کبھی علم کی طرف متوجہ ہوتے بھی ہیں تو رٹنے اور رٹانے سے آگے نہیں بڑھتے،تجسس اور تحقیق ہمارے ہاں شجرِ ممنوعہ ہے۔ وہ تمام معاشرے اور سماج جن کی کبھی کوئی ...

Zaban-e-Khalq زبان خلق ، شمارہ 41

Image

تلخ و تُرش ...................................... اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

  ٭سی بی ایس ای نے ۱۱ ویں جماعت کے نصاب سے شہریت، قوم پرستی اور سیکولرازم کے اسباق ہٹائے۔۔۔ ایک خبر شہریت اور سیکولرازم کے اسباق ہٹانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن قوم پرستی!! لگتا ہے پردے کے پیچھے بھی بہت کچھ ہورہا ہے اور اس کا، جب پردہ اُٹھے گا تب پتہ چلے گا۔ انتظار کریں !!! ٭سماج میں علماء کی معتبریت کو شدید خطرہ۔۔۔ ایک عنوان جن کی وجہ سے سماج کی معتبریت ہی ختم ہونے کو ہے ان کی معتبریت کو جب تک سماج میں اندھ بھگت موجود ہیں یقین رکھیں کوئی خطرہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ٭ مدرسوں کے مدرسین اور ائمہ مساجد کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے سے پریشان۔۔۔ ایک اخبار کی سرخی لیکن اس کا ذمہ دار کون؟ اگر مسلمانوں کے پاس اپنے اپنے علاقوں کے حدتک ہی سہی کوئی مرکزی بیت المال ہوتا جہاں اجتماعی طریقے سے زکواۃ، صدقات وغیرہ جمع ہوتے تو آج یہ نوبت نہ آتی۔آج العطش العطش چلانے والے، کیا انہوں نے کبھی اس کی کوشش کی؟ ٭ایغور مسلمانوں پر مبینہ زیادتی، امریکا نے چینی حکام پر پابندی عائد کردی۔۔۔ ایک عالمی خبر امریکا کب سے مسلمانوں کا ہمدرد بن گیا؟ یہ عالمی سیاسی شطرنج میں چین کو گھیرنے کی ایک چال ہے اور کچ...

معاشی استحکام, تعلیم و ہنر شناسی اور ہم .................................... اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

جرعات معاش انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سب سے اہم ہے۔ بغیر معاشی استحکام کے انسانی ترقی ناممکن ہے۔ جب تک معاشرے اور سماج میں معاشی استحکام قائم نہیں ہوتا لاقانونیت، شر و فساد، ڈاکہ و چوری، کساد بازاری، رشوت اور دھوکہ جیسے خطرناک جرائم پر قابو پایا نہیں جاسکتا۔ معاشی استحکام کیسے قائم کیا جائے اس فکر کا نام ہی تعلیم و ہنر شناسی ہے۔ معاشی استحکام اور تعلیم آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ بغیر تعلیم کے معاشی استحکام کا تصور ممکن نہیں اور بغیر معاشی استحکام کے تعلیم کا نظام ناقص ہے۔ ہمارے معاشرے میں اول تو تعلیم و ہنر شناسی کا تصوایسا نہیں ہے جیسا کہ ہونا چاہیے اور معاشی استحکام کے تعلق سے تو کوئی اجتماعی سوچ ہے ہی نہیں۔ ملک آزاد ہوئے ستّر سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے، دوسرے سماج اور معاشرے،معاشی استحکام اور تعلیم کے ساتھ ترقی کی سیڑھیاں تیزی سے طے کرے میں لگی ہوئی ہیں اور ہم لایعنی وبیکار فکروں اور افعال میں اپنے آپ کو ضائع کر رہے ہیں۔ اس کے لئے کسی ایک کو ذمہ دار نہیں ٹہرا یا جا سکتا۔کیونکہ یہ ہمارے اجتماعی شعور کا معاملہ ہے۔یہاں ہم اگریہاں ناکام نظر آرہے ہیں تو اس کے لئے پورا سماج اور مع...

Zaban-e-Khalq زبان خلق ، شمارہ 40

Image

تلخ و ترش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

٭وزیر اعظم نریندر مودی چین کی جانب سے ہمارے حدود میں در اندازی اور قبضہ کرنے کی کھل کر مذمت کریں اور ملک کو بتائیں کہ قبضہ کرنے والوں کو پیچھے ہٹایا جائے گا۔۔۔ کپل سبل، کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما کانگریس پارٹی کے رہنماؤں کو اگر ابھی بھی لگتا ہے کہ وزیر اعظم ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیں گے اور اس پر غور کریں گے اور انہیں راست جواب دیں گے تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ بے وقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ٭ٹڈیوں کا خطرہ، دہلی اور اُس کے اطراف و اکناف کے علاقوں میں سخت چوکسی۔۔۔ ایک خبر کبھی آتنک وادی، کبھی پلوشن تو کبھی کرونا، اب یہ ٹڈی دل، آخر دہلی والے کس کس سے چوکس رہیں، اپنی بچاؤ کے لئے اگر انہیں خود ہی چوکسی برتنی ہے تو انہوں نے جو چوکیدار اپنی حفاظت کے لئے چن رکھیں ہیں وہ کیا ہوئے۔ ٭حکومت عقیدے، صنف، ذات پات اور زبان کی بنیاد پر کسیطرح کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کرتی۔۔۔ وزیر اعظم نریندر مودی(مارتھوما سیریائی چرچ میں منعقدہ تقریب میں ویڈیو کانفرنسنگ سے خطاب کرتے ہوئے) بے شک حکومت ایسا نہیں کرتی لیکن اس کے بھگت ایسا کرتے ہیں، یاد رکھیں کسی کی غلطی کسی پر تھوپنا سراسر نا انص...

کچھ کڑوی حقیقتیں اور سچائیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

جرعات حقیقتیں اور سچائیاں اکثر کڑوی ہوتی ہیں۔ جو قوم یا گروہ یہ کڑواگھونٹ پینے سے کتراتی ہے،خوابوں اور خیالوں کی ایک مصنوعی دنیا   بنا کراُسی کو اصل کا درجہ دے کر اُسی میں مدہوش رہتی ہے وہ یا توخود مٹ جاتی ہے یا دوسروں کے ہاتھوں مٹا دی جاتی ہے۔ یہ قدرت کا اصول ہے۔ بر صغیر پر مسلمان تقریبا ایک ہزار سال سے زیادہ حکومت کرتے رہے۔ پھر آپسی جنگ و جدال، عیش پرستی، جاہ پرستی، آبا پرستی، اخلاقی زوال اور اندھی تقلید، حکومتی فرائض سے غفلت، دولت کی ہوس اور اقتدار کی خاطر آپسی سازشیں، ان سب میں مبتلا ہوکراپنی پہچان گنوادی۔ حاکم کی حیثیت سے گر کر غلام کے درجے پر پہنچ گئے۔ یہ پہلی ایسی کڑوی سچائی ہے جو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ پھر جنگ آزادی کے نام پر مسلمانوں میں تھوڑی ہلچل پیدا ہوئی لیکن نادانی اور ابن الوقت سیاسی نام نہاد رہنماؤں کے زیر اثر دو قومی نظریہ اپنا کر،تقسیم وطن کے نام پر ایک بہت بڑی سیاسی غلطی کر بیٹھے۔ اپنی بہت بڑی اکائی کو جغرفیائی سرحدوں کے ذریعے ٹکڑوں میں تبدیل کر کے جانتے بوجھتے مسلمانوں نے اپنی طاقت توڑ لی۔ یہ دوسری کڑوی سچائی ہے جس کا انکار ممکن ہی نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ ا...